الحمد للہ.
اول:
خاوند اپنی بیوی کو کہے: "تمہیں طلاق ہے"، یہ صریح طور پر طلاق ہے، اس میں نیت کا عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی اس میں آپ کی یہ بات قبول کی جائے گی کہ "میں نے تو اسے محض ڈرانے دھمکانے کا ارادہ کیا تھا"، لہذا آپ نے کہا: "تمہیں طلاق ہے" تو اس سے طلاق ہو گئی ہے، اس میں آپ کی نیت نہیں دیکھی جائے گی؛ کیونکہ آپ کو اس لفظ کا علم ہے اور اس کا معنی بھی سمجھتے ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص نیند کی حالت میں یا بے ہوشی کی حالت میں طلاق کا لفظ بولتا ہے اور اس کا طلاق کا لفظ بولنے کا ارادہ نہیں ہوتا تو پھر اس کی طلاق واقع نہیں ہو گی، اسی طرح اگر کوئی شخص طلاق کا لفظ بولتا ہے اور اسے اس لفظ کے معنی کا علم نہیں ہے تو پھر بھی طلاق نہیں ہو گی۔
لیکن طلاق کا لفظ قصداً بولنا اور اس کے معنی اور مفہوم کا بھی علم ہو تو پھر طلاق واقع ہو جائے گی چاہے طلاق دینے کا ارادہ نہ بھی ہو۔
قرافی رحمہ اللہ اپنی کتاب : "الفروق" (3/163) میں کہتے ہیں:
"جہاں فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ: "صریح طلاق میں نیت کا ہونا شرط ہے" تو ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ : طلاق کا لفظ بولنے کا ارادہ اور عزم ہو، یہ شرط اس لیے لگاتے ہیں تا کہ وہ شخص اس میں شامل نہ ہو جس کا طلاق کا لفظ بولنے کا ارادہ نہیں تھا [لیکن زبان سے طلاق کا لفظ نکل گیا] مثلاً: اس [آدمی کی بیوی]کا نام طارق تھا اس کو بلاتے ہوئے زبان لڑ کھڑا جائے اور وہ کہہ دے: "یا طالق"[عربی زبان میں اسکا معنی ہے: اے طلاق یافتہ] تو ایسی صورت میں یہ طلاق نہیں ہو گی؛ کیونکہ اس شخص نے لفظ طلاق بولنے کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا۔
اور جب فقہائے کرام یہ کہیں کہ: "نیت طلاق کے صریح الفاظ میں شرط نہیں ہے" تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لفظ طلاق کو بولتے ہوئے اسے بمعنی طلاق استعمال کرنے کی نیت ہونا شرط نہیں ہے؛ کیونکہ صریح الفاظ میں نیت شرط نہیں ہوتی اس پر سب کا اجماع ہے، نیت کا عمل دخل ان الفاظ میں ہوتا ہے جو صریح نہ ہوں بلکہ بطور کنایہ بولے جائیں" ختم شد
لہذا اگر آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد ان سے رجوع کر لیا پھر اسے دوبارہ طلاق دے دی تو اس طرح آپ دو طلاقیں دے چکے ہیں۔
یہ اس صورت میں جب آپ نے بول کر طلاق دی ہے، لیکن جب آپ اسے لکھ کر طلاق دیں تو پھر اسی وقت طلاق ہو گی جب آپ طلاق کی نیت بھی کریں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریری طلاق صریح طلاق کے زمرے میں نہیں آتی، بلکہ یہ کنایتاً دی جانے والی طلاق شمار ہوتی ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (72291) کا جواب ملاحظہ کریں۔
پھر آپ نے اپنی اہلیہ کو کہا: " اگر تم میری بات نہیں مانو گی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا " یہ آپ کی جانب سے طلاق دینے کی دھمکی تھی اگر آپ نے طلاق دے دی تو یہ آپ نے دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیا اور اگر دھمکی کو عملی جامہ نہیں پہنایا اور حقیقی معنوں میں طلاق بھی نہیں دی تو پھر یہ صرف دھمکی ہی ہے طلاق نہیں ہے۔
دوم:
غصے کی حالت میں طلاق کی کچھ اقسام ایسی ہوتی ہے جو متفقہ طور پر ہو جاتی ہیں، اور کچھ متفقہ طور پر واقع نہیں ہوتیں، جبکہ کچھ صورتیں ایسی ہیں کہ جن کے واقع ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے، اس بارے میں تفصیلی گفتگو سوال نمبر: (22034) اور (45174) کے جوابات میں گزر چکی ہے۔
جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایسا غصہ جو انسان کو دائرہِ شعور اور احساس سے خارج کر دے ایسے غصے میں طلاق نہیں ہوتی، اسی طرح ایسا غصہ جو انسان کو طلاق دینے پر مجبور کر دے کہ اگر غصہ نہ ہوتا بلکہ نارمل حالت ہوتی تو طلاق نہ دیتا ؛تو تب بھی طلاق نہیں ہو گی۔
یہ موقف متعدد اہل علم کا ہے اور انہوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
اس بنا پر: اگر آپ نے انتہائی شدید غصے کی حالت میں طلاق کا لفظ بولا ہے اور اگر اس وقت آپ کو غصہ نہ آیا ہوتا تو آپ طلاق نہ دیتے، تو ایسی صورت میں طلاق نہیں ہوتی۔
لیکن اگر آپ کو غصہ معمول کے مطابق آیا ہوا تھا اور غصے نے آپ کی عقل کو ماؤف نہیں کیا تھا تو پھر طلاق ہو گئی ہے۔
ویسے آپ کے لیے مشورہ ہے کہ آپ خود اپنے قریب ترین شرعی عدالت میں جائیں اور ان سے اپنا مسئلہ حل کروائیں۔
اگر شرعی عدالت نہ ہو تو پھر جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کے مفتی حضرات سے رابطہ کریں اور ان کے سامنے اپنی ساری حقیقت کھول کر بیان کریں کہ آپ نے طلاق کیلیے بولتے ہوئے کیا کہا تھا، تا کہ جو کچھ آپ کے معاملات ہوئے ہیں ان پر تفصیلی فتوی جاری کر دیں۔
اور اگر آپ اپنے ساتھ اپنی اہلیہ کو بھی لے جائیں تو یہ زیادہ بہتر اور افضل ہو گا۔
واللہ اعلم.