الحمد للہ.
اول:
نقد کرنسی کے ذریعے خریدی جانی والی چیزیں دو قسم کی ہیں:
پہلی قسم: ایسی چیز جس کی خریداری کے لیے قیمت اور مبیع دونوں مجلس عقد میں موجود ہوں، اور مجلس عقد میں ہی حقیقی یا حکماً چیز پر قبضہ بھی ہو۔ اس میں سونا، چاندی اور کرنسی کا لین دین شامل ہے۔ ان کی خریداری کرتے ہوئے حقیقی قبضہ اس طرح ہو گا کہ آپ نقدی دیں اور سونا، یا کرنسی اسی مجلس میں وصول کریں۔
اور حکماً قبضہ اس طرح ہو گا کہ آپ بینک کی طرف سے مصدقہ چیک دیں، یا بینک اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کر دیں، اور اسی مجلس میں سونا وصول کریں۔
مجلس عقد میں قبضہ کی دلیل صحیح مسلم: (1587) میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، نمک نمک کے بدلے خریدتے ہوئے مقدار میں برابر اور نقد و نقد ہو۔ اگر ان چیزوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرو تو مقدار میں جیسے مرضی کمی بیشی کر لو لیکن نقد و نقد ہو)
اور نقدی کرنسی نوٹ کے احکامات بھی وہی ہیں جو سونے اور چاندی کے احکامات ہیں۔
اس بنا پر:
سونے اور چاندی کی خریداری پیشگی یا مؤخر ادائیگی کے ساتھ کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ قیمت اور مبیع کا تبادلہ مجلس عقد میں ہو۔
سونے کا پانی چڑھی ہوئی اشیا کے بارے میں یہ ہے کہ اگر اس سنہری چیز کو کھرچ کر یا آگ پر پگھلانے سے سونا حاصل ہو تو اس کا حکم بھی سونے والا ہی ہو گا۔
لیکن اگر محض سنہری رنگت ہے، اسے کھرچنے سے سونا حاصل نہیں ہوتا، یا مصنوعی سونا ہے تو پھر اس کا حکم سونے اور چاندی والا نہیں ہو گا، اس کا حکم ذیل میں ذکر ہونے والی دوسری قسم میں آئے گا۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انگوٹھی چاندی کی ہے اور اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے، یا تلوار جیسے آلات جنگ وغیرہ پر سونے کی تہہ چڑھائی گئی ہے ، تو اگر اس چیز کو آگ پر گرم کرنے سے سونا حاصل ہو تو یہ متفقہ طور پر حرام ہے۔" ختم شد
"المجموع" (4/ 441)
دوسری قسم: ایسی چیز جس کی خریداری کے لیے قیمت اور مبیع دونوں کا مجلس عقد میں موجود ہونا ضروری نہ ہو، دونوں میں سے ایک بھی ہو تو بیع جائز ہوتی ہے۔ اس میں پہلی قسم کے علاوہ بقیہ تمام چیزیں ہیں، مثلاً: عطر، لباس، گاڑی اور زمین وغیرہ۔
ان میں مال تجارت تو حاضر ہو گا البتہ قیمت کی ادائیگی مؤخر بھی ہو سکتی ہے، اسے ادھار فروختگی بھی کہتے ہیں۔
اور یہ بھی جائز ہے کہ قیمت پیشگی ادا کر دی جائے، اور مال تجارت بعد میں وصول کیا جائے، اسے بیع سلم کہتے ہیں، اور بیع سلم کے لیے مخصوص شرائط ہیں کہ سامان تجارت کی تفصیلات اتنی بیان کر دی جائیں کہ وہ چیز مبہم نہ رہے۔
بیع سلم کی یہ بھی شرط ہے کہ قیمت مجلس عقد میں مکمل ادا کی جائے، یعنی جس وقت کسی سامانِ تجارت کو خریدنے کا معاہدہ کیا جا رہا ہے اسی وقت قیمت کی ادائیگی کی جائے، بیع سلم میں سامان کی وصولی تک ادائیگی مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔
مندرجہ بالا سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ قیمت اور سامانِ تجارت دونوں ہی مؤخر ہوں، اسی کو ادھار کی ادھار کے ساتھ بیع کہتے ہیں جو کہ منع ہے۔
اس لیے مذکورہ سامان میں سے کسی چیز کی فروختگی اس انداز سے نہیں ہو سکتی کہ مجلس عقد میں سامان بھی خریدار کے حوالے نہ کیا جائے اور نہ ہی فروخت کنندہ قیمت وصول کرے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/497)میں کہتے ہیں:
"مبیع ، یا قیمتِ مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے مجلس عقد ختم کرنا جائز نہیں ہے، یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے؛ کیونکہ یہ بیع فی الذمہ ہے اس لیے قیمت یا مبیع میں سے کسی ایک کو قبضے میں لیے بغیر مجلس عقد ختم کرنا جائز نہیں ہے، جیسے بیع سلم میں ہوتا ہے۔" ختم شد
اس لین دین کو صحیح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ:
"طرفین کی جانب سے مخصوص چیز کی صفات ذکر کر کے فروختگی کا اتفاق ہو جائے اور یہ محض ایسا وعدہ ہو کہ جسے طرفین میں سے کسی پر بھی پورا کرنا لازم نہ ہو، چنانچہ جب خریدار کے پاس سامان آ جائے تو اس وقت اگر چاہے تو خریداری مکمل کر کے سامان وصول کر لے اور قیمت ادا کر دے۔
ہم نے انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات میں گفتگو کی ہے، نیز آن لائن خریداری میں بیع سلم ، مبیع کی ملکیت اور اسی طرح کے دیگر امور پر تفصیلات درج ذیل سوالات کے جواب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے: (182364) ، (160559) ، (259320) اور (254814)
واللہ اعلم