الحمد للہ.
محترمہ سائلہ بہن، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ ایمانی اور اسلامی امور پر باہمی بات چیت کرتی ہیں، اسی دوران محبت کے حوالے سے آپ کی گفتگو ہوئی۔ اور اس حوالے سے آپ سب کو یہ بھی علم ہو گا کہ جہاں آرا کا باہمی ٹکراؤ ہو تو وہاں اہل علم سے رجوع کیا جائے خصوصاً شرعی امور میں اہل علم سے رجوع بڑا ضروری ہے۔ ذیل میں ہم اہل علم کی محبت کی انواع و اقسام کے متعلق کچھ گفتگو نقل کرتے ہیں جس سے آپ کے لیے یہ مسئلہ ان شاء اللہ واضح ہو جائے گا۔
محبت کی انواع و اقسام:
محبت کی دو قسمیں ہیں: خاص محبت اور مشترک محبت
خاص محبت کی پھر دو قسمیں ہیں: شرعی محبت اور حرام محبت
اس کے بعد شرعی محبت کی مزید ذیلی شاخیں ہیں:
1-اللہ سے محبت، یہ محبت سب سے بڑا فریضہ ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی محبت دین اسلام کی اساس ہے، اسی محبت کے کامل ہونے کی وجہ سے ایمان مکمل ہوتا ہے، اور اگر اس میں کوئی کمی پائی جائے تو عقیدہ توحید میں کمی واقع ہوتی ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
ترجمہ: اور ایمان لانے والے اللہ تعالی سے شدید محبت کرتے ہیں۔[البقرۃ: 165]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں، اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا ۔[التوبۃ: 24]
اس حوالے سے اور بھی بہت سے دلائل کتاب و سنت میں موجود ہیں۔
ان تمام دلائل میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان ذاتی پسند اور ارادے کے سامنے اللہ تعالی کی پسند اور ارادے کو ترجیح دے، چنانچہ انہی چیزوں کو اپنی پسند بنائے جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور انہی چیزوں کو ناگوار سمجھے جنہیں اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا، اللہ تعالی کے لیے ہی کسی سے دوستی یا دشمنی رکھے، اللہ تعالی کی شریعت پر کار بند رہے۔ اللہ تعالی کی محبت دل میں پیدا کرنے کے اسباب بہت زیادہ ہیں۔
2-رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت، محبت کی یہ قسم بھی دینی فرائض میں شامل ہے، بلکہ اس وقت تک کسی کا ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنی ذات سے بڑھ کر محبت نہ کرے، جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: (تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن ہی نہیں ہے جب تک میں اسے اس کے اپنے بچوں، والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔) مسلم: (44)
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "ہم نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے اور آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے میری اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں! تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے [تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو گا] جب تک تم مجھ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرنے لگو) تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا: اللہ کی قسم ! یقیناً ابھی سے ہی آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عمر! اب بات بنی )" بخاری: (6632)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ، اللہ تعالی سے محبت کے تابع ہے، اس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو کسی دوسرے کی بات پر ترجیح دی جائے۔
3-انبیائے کرام اور اہل ایمان سے محبت، یہ محبت بھی واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالی کی اطاعت کرنے والوں سے بھی محبت کی جائے، اور اللہ تعالی کے اطاعت گزاروں میں سب سے پہلے انبیائے کرام اور اہل ایمان آتے ہیں۔ اس قسم کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو اللہ کے لیے محبت کرے) یعنی اللہ تعالی پر ایمان لانے والوں اور اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کرنے والوں سے محبت کرے۔ محبت کی اس قسم کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا چاہے انسان کتنی ہی نمازیں پڑھے اور روزے رکھے۔ اسی لیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں غور و فکر کیا تو ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو یہ سمجھتا ہو کہ اس کا اپنے ذاتی درہم و دینار پر اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ حق ہو )
حرام محبت:
اس کی کچھ صورتیں ایسی ہیں جو شرک ہیں، مثلاً: آپ غیر اللہ سے ایسی محبت کریں جیسی اللہ تعالی کے ساتھ کی جاتی ہے، اس صورت میں غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنا دیں گے۔ یہ عمل اللہ کے لیے خاص محبت میں شرک ہے۔ لوگوں کی اکثریت محبت اور تعظیم میں اللہ کے شریک بنا بیٹھے ہیں۔
کچھ ایسی صورتیں ہیں جو شرک سے کم درجے کی ہیں: اس کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنے اہل خانہ، دولت، خاندان، تجارت اور گھر بار سے اتنی محبت کرے کہ ان تمام چیزوں یا کچھ کے متعلق ہجرت اور جہاد جیسی اللہ تعالی کی فرض کردہ تعلیمات پر عمل نہ کرے ۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں، اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے ۔[التوبۃ: 24]
مندرجہ بالا سطور میں خاص محبت کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔
جبکہ مشترک محبت کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم: طبعی محبت، بھوکے شخص کو کھانے سے ، پیاسے کو پانی سے محبت ہوتی ہے، اس محبت اور چاہت میں ان چیزوں کی تعظیم لازم نہیں آتی، یہ مباح محبت ہے۔
دوسری قسم: رحمت و شفقت پر مبنی محبت، جیسے والد اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے تو اس میں بھی محبوب کی تعظیم لازم نہیں ہوتی ، لہذا اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
تیسری قسم: باہمی تعلقات پر مبنی محبت، مثلاً: ایک ہی پیشے، یا علمی تخصص، یا دوستی، یا تجارت یا سفر میں شریک لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ تو یہ تینوں اقسام کی محبت مخلوق کے مابین روا ہیں۔ اسی طرح بھائیوں کی آپس میں محبت بھی اللہ تعالی کی محبت میں شرک نہیں ہے۔
اس حوالے سے آپ کتاب: { تيسير العزيز الحميد } کے باب: { ومن الناس من يتخذ من دون الله أنداداً } کا مطالعہ کریں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ مذکورہ تقسیم اور تفصیل سے آپ کے لیے کافی وافی وضاحت ہو چکی ہو گی، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو تمام خیر کے کاموں کی توفیق دے۔ اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد پر رحمتیں نازل فرمائے۔
واللہ اعلم