سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

فجور کا علاج

سوال

کرتے ہوئے برائی کی طرف میلان یا عمومی طور پر فجور کا کیا علاج ہے؟

جواب کا خلاصہ

فجور: یہ ہے کہ انسان نافرمانیوں اور گناہوں کی جانب بڑھتا چلا جائے۔ علاج: اس کا علاج توبہ، راہ راست پر استقامت، نیک لوگوں کی صحبت، اور برے لوگوں کی صحبت سے دوری ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

"فجور" یہ ہے کہ انسان نافرمانیوں اور گناہوں کی جانب بڑھتا چلا جائے، ہر قسم کی برائی کا ارتکاب کرے، نیز دل میں توبہ اور انابت کی کوئی چاہت بھی نہ ہو۔

عرب اہل لغت کہتے ہیں کہ: "فجور در حقیقت اپنے ہدف سے ہٹ جانے پر بولا جاتا ہے"
دیکھیں: "شرح نووی علی مسلم" (2/ 48)

حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ:
"فجور کا مطلب یہ ہے کہ کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کیا جائے، [عربی زبان میں]فجور کے لفظ کو "انفجار الماء" یعنی پانی پھوٹنے سے تشبیہ دی گئی ہے، نیز یہ لفظ جھوٹ بولنے پر بھی بولا جاتا ہے" ختم شد
ماخوذ از: "فتح الباری" (1/ 165)

زبیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" [عربی زبان میں فجور کے اصل ماخذ] "الفجر" کا معنی شق ہے، پھر اس کے بعد اسے حرام کاموں کے ارتکاب، زنا اور ہر قسم کے گناہوں میں بڑھتے چلے جانے پر استعمال کیا گیا" ختم شد
"تاج العروس" (13/ 299)

علامہ راغب اصفہانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"[عربی زبان میں فجور کے اصل ماخذ] "الفجر" کا معنی شق ہے تو مطلب یہ ہوا کہ فجور دینداری کو شق کرتا ہے، نیز فجور کا لفظ خرابیوں اور برائیوں کی جانب میلان پر بھی بولا جاتا ہے، اسی طرح نافرمانیوں میں بڑھتے چلے جانے پر بھی بولتے ہیں، فجور کا لفظ ہر قسم کی برائی کے لئے جامع لفظ ہے" ختم شد
"فتح الباری" (10/ 508)

دوم:

گفتگو کرتے ہوئے فجور کا ارتکاب جھوٹ بولنے ،بے حیائی پر مشتمل گفتگو کرنے اور ان میں وسعت اختیار کرنے سے ہوتا ہے، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہمیشہ سچ بولو؛ کیونکہ سچ نیکی اور اچھائی کے راستے پر لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، ایک آدمی سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ اور ہمیشہ جھوٹ سے بچو؛ کیونکہ  جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (6094) اور مسلم : (2607)نے روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کہتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سچائی ہر قسم کی مذمت سے پاک نیک اور صالح کام کرنے کی رہنمائی کرتی ہے، یہاں نیک کام میں ہر اچھا اور بہترین کام شامل ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں "البرّ" سے مراد جنت ہے، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد نیک کام اور جنت دونوں ہی ہوں۔

جبکہ جھوٹ انسان کو فجور کی جانب لے جاتا ہے، اور فجور کا مطلب یہ ہے کہ انسان استقامت سے ہٹ جائے، اس کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انسان کا میلان گناہوں کی جانب بڑھتا چلا جائے" ختم شد

سوم:

گفتگو میں فجور کا علاج اس طرح ہو گا کہ سچ بولیں، اور حق بات کریں، کثرت سے اللہ کا ذکر اور تلاوت کریں، ساتھ میں سچی توبہ بھی کریں۔

کیونکہ جب انسان اپنی زبان کو اللہ کے ذکر اور سچ بولنے میں مشغول رکھے تو پھر جھوٹ اور فحش گوئی سے اپنی زبان کو محفوظ بنا لیتا ہے۔

جبکہ فجور کا عمومی علاج درج ذیل طریقے سے ہو گا:

  • سب سے پہلے سچی توبہ کی جائے، پھر اللہ تعالی کی اطاعت پر استقامت اپنائیں، اللہ کے ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہیں، اہل خیر اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں، ساتھ میں برے اور شریر لوگوں کی صحبت چھوڑ دیں۔
  • اس کے بعد نیک لوگوں کی سیرت پر غور و فکر کریں، ان کے راستے پر چلیں، اسی طرح برے اور گندے لوگوں کے چال چلن پر غور کریں اور اُن کے راستے سے دور رہیں، برے لوگوں کے بد انجام اور بد کردار سے سبق سیکھیں؛ کیونکہ اکثر جو شخص بھی اپنی زبان یا شرمگاہ یا کسی اور ذریعے سے گناہ کرے تو اس کا انجام رسوائی اور بربادی ہوتا ہے۔
  • متقی لوگوں کی صفات پہچانیں کہ وہ حسن خلق، سچی زبان، شرمگاہ کی حفاظت، آنکھوں کی حفاظت، اور حسن معاشرت جیسی اچھی صفات سے متصف ہوتے ہیں، ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے پوری کوشش کریں۔
  • ہم کسی بھی ایسی چیز سے دور رہیں جو ہمارے اندر حرام شہوت کو برانگیختہ کرے، اور حرام کام کے ارتکاب کی دعوت دے؛ مثلاً: اپنی نظروں کو بے مہار مت چھوڑیں، فلمیں اور ڈرامے مت دیکھیں، فحاشی پھیلانے والوں، اور فارغ وقت ضائع کرنے والوں سے دور رہیں۔

بہ ہر حال جو بھی اچھے کاموں میں مشغول رہے، اہل ایمان کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے، ان کی صحبت اپنائے، دلی طور پر سرکشی ، حرام شہوت، برے اقوال اور افعال سے دور رہے، ان بری صفات میں ملوث لوگوں سے بچے تو اس کی حالت سنور جاتی ہے، اور معاملات بہتر ہو جاتے ہیں۔

اور اگر کوئی ان چیزوں میں ملوث ہے تو فوری طور پر سچی توبہ کرے، اللہ تعالی کی شریعت کی پابندی کرے، توبہ کرنے میں بالکل بھی تاخیر سے کام مت لے، گناہوں میں بڑھتا مت چلا جائے۔ تو دونوں باتوں پر عمل کرنے سے وہ فجور سے بچ سکتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب