الحمد للہ.
اول:
راجح موقف کے مطابق آپ یہ کھجوریں وصول کرنے سے پہلے فروخت کنندہ کو ہی واپس فروخت کر سکتے ہیں، اس صورت میں یہ بیع سلم کی قبل از وصولی فروختگی کے زمرے میں آئے گا، اس لیے چیز کے فروخت کنندہ کو ہی وہی چیز وصول کرنے سے پہلے فروخت کرنا جائز ہے؛ کیونکہ جو چیز جس کے ذمہ ہو اسی کو فروخت کرنا جائز ہے، تاہم اس کی کچھ شرائط ہیں کہ: آپ وہ چیز اسی دن کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق فروخت کریں گے، یا اس سے کم ریٹ پر کریں گے، زیادہ پر نہیں کر سکتے۔ نیز یہ بھی ہے کہ اگر آپ وہ چیز کرنسی کے عوض فروخت کرتے ہیں تو ادھار اور نقد دونوں طرح جائز ہے، لیکن اگر آپ گندم وغیرہ جیسی کسی جنس کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں تو پھر ادھار فروخت نہیں کر سکتے بلکہ مجلس عقد میں تقابض لازم ہو گا مقدار میں فرق ہو سکتا ہے، اور اگر کھجور کو کھجور کی جنس سے ہی فروخت کریں تو پھر مجلس میں تقابض تو ہو گا ہی مقدار میں بھی فرق نہیں ہو سکتا۔
یہ موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ نے اپنایا ہے، اور یہی موقف ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے، اس موقف کے مطابق امام احمد سے ایک روایت بھی ملتی ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: الموسوعة الفقهية (25/ 218)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی سوال کرے کہ: کیا جس چیز کی بیع سلم کی جا رہی ہے اسی کو وصول کرنے سے پہلے فروخت کیا جا سکتا ہے؟
جواب: جی ہاں بیع سلم جس فروخت کنندہ [مسلم الیہ] کے ساتھ کی جا رہی ہے اسی کو وہ چیز فروخت کرنا جائز ہے۔ جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاں تو کسی اور کو فروخت کرنا بھی جائز ہے، لیکن ان کے اس موقف میں کمزوری ہے؛ کیونکہ کسی اور شخص کو یہ چیز فروخت کی جائے گی تو ممکن ہے کہ اس چیز کو ڈیلیور کرنا مشکل ہو جائے، اور اگر آپ کوئی ادھار فروخت کی جانے والی چیز کسی اور شخص کو فروخت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ: مبیع خریدار نے اپنے قبضے میں ہی نہیں لی۔
لہذا اس معاملے میں اتنی وسعت کا اظہار میری سمجھ سے باہر ہے، اگرچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جب کسی اور کو مسلم فیہ فروخت کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو ساتھ یہ شرط لگاتے ہیں کہ خریدار اسے وصول کر سکتا ہو۔
لیکن اگر مسلم الیہ شخص کو ہی مسلم فیہ فروخت کی جائے تو اس میں تین شرائط ہیں:
پہلی: منافع نہ کمائے، یعنی جس دن فروخت کر رہا ہے اسی دن کی قیمت پر فروخت کرے؛ کیونکہ اگر مارکیٹ کی موجودہ ویلیو سے زیادہ قیمت پر فروخت کرتا ہے تو وہ ایسی چیز سے نفع کما رہا ہے جس کا وہ ضامن ہی نہیں ہے، اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی چیز سے نفع کمانے کو منع قرار دیا ہے جس کے آپ ضامن ہی نہیں ہیں۔ مثلاً: ایک شخص نے سو سیر گندم کے لیے بیع سلم کی، اور جب یہ گندم دینے کا وقت آیا تو اس دن اس کی قیمت 200 درہم تھی، اس شخص نے کہا کہ میں یہ گندم آپ کو 250 درہم میں فروخت کرتا ہوں، تو یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ابھی تک یہ گندم اس کی ضمانت میں شامل ہی نہیں ہوئی تو یہ اس سے نفع بھی نہیں کما سکتا؛ کیونکہ وہ ابھی تک اس گندم کا مالک ہی نہیں بنا نہ ہی اس نے گندم کو اپنے قبضے میں لیا ہے، لہذا اگر وہ اس گندم پر نفع کماتا ہے تو یہ ایسی چیز سے نفع ہے جس کا وہ ابھی تک ضامن ہی نہیں ہے۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی ہے کہ: "تم اس دن کے ریٹ پر اسے خریدو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" تا کہ ایسی چیز سے نفع نہ کمائے جس کا وہ ضامن ہی نہیں ہے۔
لیکن اگر 100 سیر گندم کی قیمت 200 درہم ہو، اور وہ اس گندم کو 150 درہم میں فروخت کرے تو یہ جائز ہے؛ کیونکہ اگر اس کی فروختگی اس دن کے ریٹ پر جائز ہوئی تو اس سے کم پر فروختگی تو بالاولی جائز ہو گی۔
پھر ہم نے زیادہ قیمت پر فروختگی کی ممانعت کی وجہ یہ بتلائی تھی کہ ضمانت کے بغیر نفع کمانا ہے، تو کم قیمت پر فروختگی نفع نہیں بلکہ خسارہ ہے اس لیے کم قیمت پر فروختگی جائز ہوئی۔
ہم نے کہا کہ: اس دن کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق فروخت کرے، زیادہ قیمت پر فروخت نہ کرے، تو اگر آپ نے قیمت کم کر دی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔
دوسری شرط: اگر لین دین ربوی اشیا کے ساتھ ہو رہا ہے تو مجلس عقد میں تقابض ضروری ہے، مثلاً: اگر گندم کو جو کے بدلے لے رہے ہیں کہ 100 سیر گندم 200 سیر جو کے عوض تو یہ جائز ہے لیکن مجلس عقد میں اور جدا ہونے سے پہلے وصولی ضروری ہے؛ کیونکہ جو کی گندم کے عوض فروختگی ہو تو جدا ہونے سے پہلے قبضے میں لینا ضروری ہے، پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی ہے کہ "تم اس دن کے ریٹ پر اسے خریدو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور جدا ہونے سے پہلے تم اپنی اپنی چیز قبضے میں لے لو"کیونکہ وہ درہم کو دینار کے عوض یا دینار کو درہم کے عوض فروخت کرتے تھے ، اس میں جدائی سے پہلے قبضہ شرط ہے۔
تیسری شرط: اسے کسی اور بیع سلم کے لیے قیمت نہ بنائے؛ کیونکہ غالب امکان یہی ہے کہ اگر ایسا کیا تو اسے منافع ہو گا، اور اس صورت میں بھی ضمانت کے بغیر نفع کمائے گا، مثال کے طور : 100 سیر گندم کی ادائیگی کا وقت آ گیا، تو دونوں نے اتفاق کیا کہ: ہم پانچ بکریوں کی بیع سلم کے لیے قیمت بنا لیتے ہیں کہ پانچ بکریاں ایسی ایسی ہو ں گی، جو کہ ایک سال بعد دینی ہیں۔ تو یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عام طور پر ایسا سودا تبھی کرتے ہیں جب انہیں نفع ہو رہا ہو اس لیے کہ پانچ بکریوں کی قیمت تو 120 سیر گندم بنتی ہے۔ پھر اس طرح کرنے سے جب بھی ادائیگی کا وقت آئے گا وہ اسے مزید بیع سلم میں تبدیل کرتا چلا جائے گا جو کہ مقروض شخص سے زیادہ وصولی کا ایک حیلہ بن جائے گا اور مقروض شخص پر دَین کی مقدار بڑھتی چلی جائے گی۔
تو راجح موقف یہی ہے کہ مسلم الیہ کو مسلم فیہ مذکورہ تینوں شرائط کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے۔
لیکن جو اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مسلم فیہ کو فروخت ہی نہیں کیا جا سکتا، اور وہ اس کی دلیل میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ: (جو شخص کسی چیز کی بیع سلم کرے تو وہ اسے کسی کو بھی فروخت مت کرے) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن میں اس کی مکمل تحقیق بیان کی ہے۔
اور اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ: بیع سلم والی چیز کو کسی اور بیع سلم کی قیمت کے طور پر استعمال نہ کرے۔
لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے تو مسلم فیہ کی بیع بنیادی اباحت کی وجہ سے جائز ہو گی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ ترجمہ: اور اللہ تعالی نے بیع کو حلال قرار دیا ہے۔ [البقرۃ: 275]
پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ایسے لین دین کے جواز کی دلیل ہے؛ کیونکہ مسلم فیہ اور دیگر چیزوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اور اگر کوئی تفریق کا دعوی کرتا ہے تو وہ دلیل سے ثابت کرے۔" ختم شد
الشرح الممتع (9/ 87)
دوم:
جب فروخت کنندہ نے آپ کو کھجوریں دے دیں تو اب آپ اس سے نفع کمانے کے مواقع ضائع ہونے کی وجہ سے متوقع منافع کا مطالبہ نہیں کر سکتے، چاہے بائع نے آپ کے ساتھ کس قدر زیادتی کی ہو؛ کیونکہ تاخیر پر معاوضہ طلب کرنا سود ہے۔
چنانچہ اسلامی فقہ کونسل کی معاہدوں میں جرمانے کی شق کے حوالے سے قرار داد ہے کہ:
" کونسل جرمانے سے متعلقہ اپنی سابقہ قرار دادوں کی مزید تاکید کرتی ہے جن میں سے ایک بیع سلم کے حوالے سے قرار داد نمبر 85 ( 2 / 9 )، اس میں ہے کہ: "بیع سلم میں اگر چیز کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے تو اس میں جرمانے کی شق شامل کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سلم ادھار کی صورت ہے، اور ادھار کی ادائیگی میں تاخیر ہونے پر اضافی ادائیگی کی شرط شامل کرنا جائز نہیں ہے۔" اور قسطوں میں بیع کے حوالے سے قرار داد نمبر: 51 ( 6/ 2) میں ہے کہ: "اگر قسطوں میں چیز خریدنے والا مقررہ وقت تک قسطیں ادا نہ کر پائے تو اس سے کسی قسم کی اضافی ادائیگی کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ چاہے اس چیز کو پہلے سے مشروط کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، کیونکہ یہ حرام سود ہے۔""
"قرارات المجمع" (ص371)
لیکن ٹال مٹول کرنے کی وجہ سے متعلقہ شخص کو گناہ ضرور ہو گا اور ٹال مٹول کرنا حرام ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (صاحب ثروت شخص کا ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2400) اور مسلم : (1564) نے روایت کیا ہے۔
یہاں ٹال مٹول کا مطلب یہ ہے کہ بلا وجہ کسی کے حق کو دبائے رکھنا، ادا نہ کرنا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (وسائل ادائیگی پانے کے باوجود ٹال مٹول کرنا اس کی بے عزتی کرنا اور سزا دلوانا حلال کر دیتا ہے) اس حدیث کو ابو داود: (3628) ، نسائی: (4689) اور ابن ماجہ: (2427)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "إرواء الغليل" (1434) میں حسن قرار دیا ہے۔
بے عزتی کرنا: یعنی قرض خواہ لوگوں کے سامنے کہہ سکتا ہے کہ فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا اور سزا دینے کا مطلب یہ ہے کہ: اسے جیل میں ڈال دیا جائے، سفیان رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کی یہ وضاحت بیان کی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
آپ کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ مسلم الیہ کے ذمہ اپنی کھجوروں کو رقم کے عوض فروخت کر دیں، لیکن شرط یہ ہے کہ بیع اسی دن کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہو۔
نیز ساری رقم کی ادائیگی یا جزوی ادائیگی میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے؛ کیونکہ کھجوروں کی رقم کے عوض فروختگی کے لیے مجلس عقد میں تقابض لازم نہیں ہے۔
واللہ اعلم