سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

قیام رمضان کی فضیلت پانے کے لیے کیا رمضان کی ساری راتوں میں قیام کرنا شرط ہے؟

سوال

میرا سوال ماہ رمضان کے بارے میں ہے کہ ایک حدیث ہے کہ: (جو شخص بھی رمضان میں قیام کرے ایمان کے ساتھ ثواب کے امید سے ۔۔۔) تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کی ہر رات میں قیام کرے، اور اگر تیس میں سے ایک رات میں بھی قیام نہ کر سکا تو حدیث میں مذکور مغفرت اور انعام اسے نہیں ملے گا؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ ایک رات میں قیام کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی مقدار ہو سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص بھی رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔) اس حدیث کو بخاری: (2009) اور مسلم: (759) نے روایت کیا ہے۔

یہاں حدیث میں رمضان کے مہینے کو مطلق بیان کیا گیا ہے اور اس میں سارے مہینے کی راتیں مراد ہوں گی، تو ظاہر یہی ہوتا ہے کہ حدیث میں مذکور اجر ساری راتوں میں قیام کرنے پر ہی ملے گا۔

جیسے کہ علامہ صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد رمضان کی ساری راتیں ہوں، لہذا اگر کسی نے رمضان کی چند راتیں قیام کیا تو اسے مذکورہ مغفرت نہیں ملے گی، حدیث کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔" ختم شد
"سبل السلام" (4 / 182)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص بھی رمضان میں قیام کرے) یعنی پورا ماہ رمضان، اس میں کامل مہینہ مراد ہے، آغاز سے لے کر اختتام تک۔" ختم شد
"شرح بلوغ المرام" (3 / 290)

اور جو شخص رمضان کی کچھ راتوں میں قیام نہ کر سکا؛ تو اگر اس نے کسی عذر کی بنا پر قیام نہ کیا تو اس کے لیے حدیث میں مذکور اجر کی امید کی جا سکتی ہے۔

جیسے کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کوئی بندہ بیمار ہو، یا سفر میں ہو تو اس کے لیے اتنا ہی عمل لکھا جاتا ہے جتنا وہ صحت اور اقامت پذیری کے وقت کیا کرتا تھا۔) اس حدیث کو بخاری: (2996) میں روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی شخص رات کا قیام کرتا ہو اور اس پر نیند کا غلبہ ہو جائے تو اس کے لیے اس کے قیام کے برابر اجر لکھ دیا جاتا ہے، اور نیند اس پر [اللہ تعالی کی طرف سے] صدقہ بن جاتی ہے۔)
اس حدیث کو ابو داود: (1314) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے ارواء الغلیل: (2 / 204) میں صحیح کہا ہے۔

چنانچہ اگر کوئی شخص رمضان کی کچھ راتوں میں قیام سستی کی وجہ سے نہیں کر پاتا تو حدیث کے ظاہری الفاظ اور مفہوم یہی تقاضا کرتے ہیں کہ اسے یہ فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔

دوم:

جبکہ رمضان میں قیام کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کی حد بندی شریعت نے نہیں کی؛ چنانچہ شریعت میں رمضان کے قیام کے لیے معین رکعات کا قیام کرنے کی صراحت نہیں ہے۔

جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" قیام رمضان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خصوصی طور پر کوئی حد بندی مقرر نہیں فرمائی۔۔۔ چنانچہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قیام رمضان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی مخصوص تعداد متعین کی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں کیا جا سکتا تو وہ غلطی پر ہے۔۔۔ چنانچہ کبھی انسان عبادت کے لیے توانا ہوتا ہے تو اس کے لیے لمبا قیام افضل  ہے ، اور کبھی انسان پر تھکاوٹ غالب ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے مختصر قیام افضل ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز یکسانیت پر مبنی ہوتی تھی؛ چنانچہ جس وقت آپ قیام لمبا کرتے تھے تو آپ رکوع و سجود بھی لمبے کرتے تھے، اور جب قیام مختصر کرتے تو پھر رکوع سجود بھی مختصر فرماتے تھے، ایسی یکسانیت آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرائض، قیام اللیل اور نماز کسوف وغیرہ سب نمازوں میں اپناتے تھے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (22 / 272 – 273)

خلاصہ یہ ہے کہ: رمضان میں رات کے قیام کے لیے زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، اس لیے مسلمان جتنی مرضی رکعات ادا کر سکتا ہے۔

جبکہ کم از کم رات کی نماز کی مقدار وتر کی ایک رکعت ہے۔

لیکن رمضان میں قیام کی فضیلت صرف ایک رکعت کی بنا پر حاصل ہونا محل نظر ہے؛ کیونکہ شریعت نے رمضان میں کسی خاص نوعیت کے قیام کی ترغیب دلائی ہے، جو کہ سال کی دیگر راتوں کی بہ نسبت زیادہ اہم اور تاکید والا ہے، چنانچہ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اور سلف صالحین کی رمضان میں کیفیت الگ ہی ہوتی تھی، پھر اسی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی طور پر تسلسل کے ساتھ مسجد کے امام کی اقتدا میں اجتماعی طور پر نماز ادا کی جانے لگی، یہ طرز عمل کسی اور فعل میں نظر نہیں آتا، پھر مقتدی حضرات کو یہ بھی ترغیب شریعت میں دی گئی کہ جب تک امام اپنی پوری نماز سے فارغ ہو جائے اس وقت سے امام کے ساتھ نماز ادا کرتا رہے۔

جیسے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک جب کوئی آدمی امام کے نماز مکمل پڑھانے تک نماز پڑھتا رہتا ہے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔) اس حدیث کو ابو داود: (1375)، اور ترمذی: (806) نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے "حسن صحیح" قرار دیا ہے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (153247) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

لیکن جب کوئی شخص تنہا نماز ادا کرے تو افضل یہ ہے کہ ایسے ہی نماز ادا کرے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خشوع و خضوع کے ساتھ گیارہ رکعت ادا کیا کرتے تھے، تا کہ یہ بات بھی ثابت ہو کہ ایمان اور ثواب کی امید سے اس نے نماز ادا کی ہے۔

اسی طرح سیدنا ابو سلمہ بن عبد الرحمنؒ کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز رمضان میں کیسی ہوا کرتی تھی؟ تو آپ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان ہو یا غیر رمضان ہمیشہ گیارہ رکعت ہی ادا کیا کرتے تھے، آپ پہلے چار رکعت ادا کرتے ان کی طوالت اور خوبصورتی کے بارے میں تو نہ ہی پوچھو ، پھر اس کے بعد چار رکعت ادا کرتے، ان کی بھی طوالت اور خوبصورتی کے بارے میں بھی مت پوچھیں، اس کے بعد پھر تین رکعت ادا کرتے تھے۔
اس حدیث کو بخاری: (1147) اور مسلم: (738) نے روایت کیا ہے۔

چنانچہ اگر کوئی اس سے زیادہ بھی ادا کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (9036) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب