جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بیرون ملک آٹھ روزہ قیام اور تربیتی دورے میں شرکت کی غرض سے سفر کرے گا، تربیتی کورس میں توجہ کی ضرورت ہے، تو کیا اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے؟

سوال

میں جدہ میں مقیم ہوں اور لندن جاؤں گا، وہاں پر آٹھ دن قیام ہو گا، لندن جانے کا مقصد ایک تربیتی دورے میں شرکت ہے تا کہ عالمی معیار کا امتحان پاس کر سکوں، تربیتی دورے کا وقت افطاری سے چار گھنٹے پہلے ہو گا اور مغرب کی اذان تک جاری رہے گا، اس میں مکمل توجہ کی ضرورت ہوگی اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے ٹریننگ بھی ہوگی، تو کیا میرے لیے روزہ خوری کی اجازت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ سفر پر جاتے ہوئے اور واپسی پر اس وقت روزہ چھوڑ سکتے ہیں جب شہری آبادی سے دور نکل جائیں۔

تو مثال کے طور پر آپ نے جدہ سے ظہر کے وقت جانا ہے تو آپ کے لئے فجر سے پہلے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، آپ روزہ رکھیں، اور پھر جب سفر پر نکلتے ہوئے شہری آبادی سے باہر نکل جائیں تو روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

اسی طرح واپسی کے دن ہو گا، مثلاً: اگر آپ دن کے وقت سفر کر رہے ہیں تو شہری آبادی سے باہر جا کر ہی روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

دن کے سفر کرنے والے کے لئے روزہ چھوڑنے کا موقف امام احمد، شعبی، اسحاق اور داود کا ہے، اور یہی موقف راجح ہے۔

جبکہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص دن میں سفر کرے تو اس کے لئے اس دن روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/117) میں راجح قول کی دلیل ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس کی دلیل میں عبید بن جیبر کہتے ہیں کہ: "میں ابو بصرہ غفاری کے ساتھ فسطاط شہر سے ماہ رمضان میں کشتی پر سوار ہوا، اور کشتی چلنے لگی، پھر انہوں نے اپنا دوپہر کا کھانا اپنے قریب کیا، ابھی آبادی کو عبور نہیں کیا تھا کہ دستر خوان منگوایا اور پھر کہا: قریب ہو جاؤ، تو میں نے کہا: کیا آپ کو ابھی آبادی نظر نہیں آ رہی؟ اس پر ابو بصرہ نے کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے رو گردانی کرنا چاہتے ہو؟ یہ کہتے ہوئے کھانا شروع کر دیا" اس روایت کو ابو داود نے روایات کیا ہے۔"

پھر اس کے بعد ابن قدامہ کہتے ہیں:
"اگر یہ ثابت ہو گیا، تو مسافر کے لئے روزہ اس وقت تک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے جب تک وہ آبادی کو اپنے پیچھے نہ چھوڑ دے، مطلب یہ ہے کہ آبادی سے باہر نکل آئے۔

جبکہ حسن کہتے ہیں کہ: اگر چاہے تو جس دن سفر کرنا چاہتا ہے اس دن گھر سے ہی روزہ توڑ کر نکلے، اسی طرح کا موقف عطا سے بھی منقول ہے۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: حسن کا موقف شاذ ہے۔ اس لیے کہ قیام کی حالت میں کسی کو بھی روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے، نہ تو اس کی کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی نقلی، صرف حسن سے ایک موقف منقول ہے۔ " ختم شد
دوم:

مسافر اگر کسی علاقے میں چار دن سے زیادہ  قیام کی نیت کر لے تو اس کا حکم مقیم والا ہو گا، یہ مالکی، شافعی، اور حنبلی جمہور اہل علم کا موقف ہے، اس لیے ایسے مسافر پر وہ سب کچھ لازمی ہو گا جو مقیم پر لازمی ہوتا ہے، یعنی نماز پوری پڑھے اور روزے رکھے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/65) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی مسافر کسی علاقے میں 21 نمازوں سے زائد رہنے کی نیت کر لے تو پوری نماز پڑھے گا، امام احمد رحمہ اللہ سے مشہور موقف یہی منقول ہے کہ اکیس نمازوں سے زیادہ قیام کی نیت کرنے پر نماز پوری پڑھنی ہوگی، اس موقف کو اثرم اور مروذی سمیت دیگر نے بھی نقل کیا ہے، ان سے یہ بھی منقول ہے کہ اگر کوئی چار دن  قیام کی نیت کر لے تو نماز پوری پڑھے، اور اگر کم دنوں کی نیت ہو تو قصر کرے، یہ مالک، شافعی اور ابو ثور وغیرہ کا موقف ہے۔" ختم شد

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (8/99) میں ہے کہ:
"جس سفر کے لئے سفری رخصتیں اپنانا شرعی طور پر جائز ہے وہ ایسا سفر ہے جس کو عرف میں سفر کہا جائے، اس کی مسافت تقریباً 80 کلومیٹر ہے، چنانچہ جو شخص اتنی یا اس سے زیادہ سفر کرنے کی نیت کر لے تو وہ سفری رخصتوں سے مستفید ہو سکتا ہے، مثلاً: موزوں پر مسح تین دن اور راتوں تک کر سکتا ہے، نمازیں جمع اور قصر کر سکتا ہے، رمضان میں روزے چھوڑ سکتا ہے۔ تاہم اگر یہی مسافر کسی شہر میں چار دن سے زیادہ  قیام پذیر ہونے کی نیت کرے تو پھر سفر کی رخصتوں سے مستفید نہیں ہو سکتا، اور اگر چار دن یا اس سے کم وقت قیام کی نیت کرے تو وہ سفر کی رخصتوں پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ایسا مسافر جو کسی شہر میں مقیم تو ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ کب اس کا کام ہو گا، نہ اس نے اپنے ٹھہرنے کے ایام مقرر کیے ہیں تو پھر وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے چاہے چار دن سے زیادہ قیام ہو جائے ، نیز اس میں بری یا بحری سب سفر برابر ہیں" ختم شد

اس لیے آپ نے لندن میں چونکہ 8 دن رہنے کی نیت کی ہوئی ہے تو دوران قیام آپ کو روزہ خوری اور نمازیں قصر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اور جو مشقت یا ذہنی توجہ کی ضرورت آپ نے ذکر کی ہیں، ان کی بنا پر آپ روزہ نہیں چھوڑ سکتے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (132438) اور (141646)کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب