سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

امتحانات میں نقل مارنے کی وجہ سے نمایاں پوزیشن حاصل کر لی اور اس پر انعام بھی وصول کیا تو کیا اس کے لئے یہ جائز ہے؟

سوال

ہمارے شہر میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں کے اعزاز میں تقریب ہوئی اور مجھے اس میں کمپیوٹر انعام میں ملا، لیکن میں نے امتحانات میں نقل ماری تھی اور اب مجھے نہیں معلوم کہ پورے شہر کے بچوں نے امتحانات میں بوٹی لگائی تھی یا نہیں۔ اس بات کو کافی عرصہ ہو گیا، اور یہ بھی ہے کہ میں ایک طالبہ کے ساتھ شریک پوزیشن ہولڈر تھا، یعنی مجھے اس کے ساتھ انعام دیا گیا تھا اب مجھے نہیں معلوم کہ اس نے بوٹی لگائی تھی یا نہیں!؟ تو کیا مجھ پر اس کمپیوٹر کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آپ نے امتحانات میں نقل لگائی اور آپ نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبہ میں شامل ہو گئے اور اسی بنا پر آپ کو انعام بھی دیا گیا تو یہ انعام آپ کے لیے حلال نہیں ہے، آپ پر لازمی ہے کہ جس ادارے نے آپ کو یہ انعام دیا تھا اسے واپس کریں، اگر یہ کمپیوٹر آپ کے پاس نہیں ہے اور اسے عرصہ بیت گیا ہے تو اس کی قیمت واپس کریں؛ کیونکہ انعام اسی شرط پر دیا گیا تھا کہ آپ حقیقی معنوں میں نمایاں پوزیشن ہولڈر ہیں نہ کہ دھوکا دہی سے اوپر آئے ہیں، چنانچہ یہ شرط آپ میں نہیں پائی جاتی تو آپ اس انعام کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔

تاہم آپ کے لئے یہ لازمی نہیں ہے کہ اس ادارے کو مکمل تفصیلات بتلائیں، بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ آپ ان کے اکاؤنٹ میں یہ رقم جمع کروا دیں یا عطیہ اور تعاون کے نام پر ان کو دے دیں۔

اور اگر رقم واپس کرنا ممکن نہ ہو تو ان پیسوں کو ایسی جگہ خرچ کر دیں جو اس ادارے کے تحت آتی ہیں، مثلاً: اگر اس ادارے کے تحت تعلیمی اسکول چلائے جاتے ہیں تو پھر آپ ایک کمپیوٹر خرید کر ان کے ماتحت کسی اسکول کو دے دیں، اس طرح آپ بری الذمہ ہو جائیں گے۔

نیز اگر سب طلبہ نے ہی نقل ماری ہو تب بھی آپ کے لئے یہ انعام حلال نہیں ہے؛ کیونکہ اگر انہوں نے نقل ماری بھی ہے تو ان میں سے کسی کو بھی یہ انعام نہیں مل سکا۔

مذکورہ اقدام کرنے کے ساتھ ساتھ آپ دھوکا دہی سے توبہ بھی کریں؛ کیونکہ دھوکا دہی کبیرہ ترین گناہوں میں شامل ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے) اس حدیث کو مسلم: (102) نے روایت کیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (279129) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب