جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

قرآن کریم میں لباس کا تصور ستر ڈھانپنے اور زینت کے لیے ہے۔

سوال

قرآن کریم کی سورت اعراف میں مذکور لباس ستر ڈھانپنے کے لیے ہے یا صرف خوبصورتی اور زینت کے لیے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فرمانِ باری تعالی ہے:
يَابَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ * يَابَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ: اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت بھی ہے ،اور لباس تو تقویٰ کا ہی بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شاید لوگ کچھ سبق حاصل کریں [26] اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کے لباس اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں انہیں دکھلا دے۔وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔[الاعراف: 26 - 27]

تو اس آیت کریمہ میں مذکور لباس میں شرمگاہ کو ڈھانپنے والا لباس شامل ہے اور وہ لباس بھی شامل ہے جو کہ صرف زینت اور خوبصورتی کے لیے پہنا جاتا ہے۔

چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: "اے بنی آدم ہم نے تم پر بلندیوں سے اپنا فضل نازل کیا اور تمہیں لباس مہیا کیا جو تمہاری شرمگاہ کو چھپاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک اعلی ترین لباس جو کہ خوبصورتی کے لیے تم زیب تن کرتے ہو۔

اور خشیت الہی پر مبنی لباس تمہارے لیے ہر قسم کے لباس سے بہتر ہے؛ کیونکہ یہ لباس تمہیں اللہ کے عذاب سے بچائے گا۔

یہی وہ نعمت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عطا کی چاہے اس کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو، یہ لباس کی نعمت اللہ تعالی کی قدرت، فضل، اور رحمت کی واضح دلیل ہے؛تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں، اور اللہ تعالی کی نا فرمانی سے بچ جائیں۔

اللہ تعالی نے بنی آدم کو دوسری بار پھر سے مخاطب کیا؛ کیونکہ آگے آنے والی تاکیدی نصیحت بہت اہمیت کی حامل ہے، اسی طرح جنہیں نصیحت کی جا رہی ہے وہ بھی بہت اہم ہیں۔

تو مطلب یہ ہوا کہ: اولادِ آدم! تمہیں شیطان آزمائش اور تنگی میں نہ ڈال دے اور تمہارے دلوں میں بری چیز کو اچھا اور اچھی چیز کو برا بنا کر وسوسوں میں مبتلا نہ کر دے جس کے نتیجے میں تم جنت سے محروم کر دئیے جاؤ اور جہنم رسید ہو جاؤ، اس لیے تم شیطانی وسوسوں میں آ کر فتنے میں ملوث ہونے سے بچو۔۔۔

جیسے کہ شیطان نے تمہارے والدین آدم اور حواء کو فتنے میں ڈال کر انہیں جنت سے باہر نکلوا دیا؛ کیونکہ وہ دونوں شیطان کے پیچھے لگ گئے تھے، وہی ان کے لباس اتروانے کی وجہ بنا ؛تا کہ وہ ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھیں۔

شرمگاہ برہنہ کرنا انسانیت سے عاری عمل ہے، اور یہ کام آدم سے نسبت رکھنے والوں کو زیب نہیں دیتا۔

إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ  مطلب یہ ہے کہ: قبیل سے مراد گروہ اور جماعت، یعنی ابلیس کی جماعت مراد ہے جو کہ جنوں کی شکل میں شیطانی لشکر ہیں۔

یہ جملہ شیطان کے فتنے سے بچنے کی وجہ بیان کر رہا ہے، اسی طرح شیطان سے خبردار کرنے کی تاکید بھی ہے؛ کیونکہ اگر دشمن آپ تک ایسے راستے سے رسائی رکھتا ہے جو آپ کو نظر نہیں آتا تو پھر آپ کو دشمن کے خلاف انتہائی چوکنا اور چوکس رہنا ہو گا؛ کیونکہ شیطان تو اولاد آدم کے جسم میں خون کی جگہ دوڑتا ہے، اس لیے شیطان کے خفیہ مکر و فریب سے بچو، شیطانی چیلوں اور چالوں سے محفوظ رہو، شیطانی جالوں میں بھی نہ پھنسو۔

إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ  یعنی ہم نے شیاطین کو ایسے لوگوں کا قائد بنایا ہے جو اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی تصدیق نہیں کرتے، یہی شیاطین ان کو گمراہ کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں ؛ کیونکہ یہ لوگ خود ہی اپنی عقلوں کو ضائع کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور رب تعالی کی طرف سے پیدا کی گئی فطرت کے خلاف چلتے ہیں۔" ختم شد
"التفسير الوسيط" (3/ 1402)

اسی طرح علامہ سعدی ؒ اپنی تفسیر (285)میں لکھتے ہیں:
"جس وقت اللہ تعالی نے آدم اور ان کی اہلیہ حواء کو ان کی اولاد سمیت زمین پر اتار دیا تو دونوں کو زمین میں رہنے کی کیفیت بتلا دی کہ دنیا میں ان کے لیے ایک ایسی زندگی ہے جس کے بعد لا محالہ موت ہے، یہ زندگی امتحانات اور آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے، اولادِ آدم نے یہیں اس دنیا میں رہنا ہے، ان کی طرف انبیائے کرام بھیجے جائیں گے، ان کی جانب رسولوں کی کتابیں بھی آئیں گی یہاں تک کہ سب فوت ہو جائیں گے، اور وہیں زمین میں ہی دفن کیے جائیں گے، پھر جب وہ پورے ہو جائیں گے تو اللہ تعالی انہیں اٹھائے گا اور انہیں زمین سے نکال کر حقیقی گھر میں لے آئے گا جو کہ اصل گھر اور حقیقی دار اقامت ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے ضروری لباس مہیا کرنے پر انہیں اپنا احسان جتلایا، یہاں اس لباس سے مراد وہ لباس ہے جو زینت کے لیے پہنا جاتا ہے۔

اسی طرح دیگر تمام کھانے پینے ،سواری اور جنسی ضروریات پوری کرنے کی چیزیں ہیں، اللہ تعالی نے بندوں کے لیے ان کی ضروریات پوری کرنے کی اشیا بھی میسر فرمائیں ہیں بلکہ ان ضروریات کو مکمل کرنے والی چیزیں بھی عطا کی ہیں، ساتھ میں یہ بھی بتلا دیا کہ یہ چیزیں ہی ان کی زندگی کا مقصد نہیں ہیں، بلکہ ان چیزوں کو اس لیے نازل کیا ہے کہ یہ عبادتِ الہی اور اطاعتِ الہی کے لیے معاون ثابت ہوں، اسی لیے فرمایا: وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ    یعنی مادی لباس کی بہ نسبت معنوی لباس جو کہ انسان کے ساتھ ہر وقت رہتا ہے وہ زیادہ بہتر ہے جو کہ نہ تو کبھی بوسیدہ ہوتا ہے نہ ہی پرانا ہوتا ہے، یہی معنوی لباس انسان کی جان اور قلب کی خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔

جبکہ ظاہری لباس زیادہ سے زیادہ ظاہری شرمگاہ کو کچھ وقت کے لیے چھپا دیتا ہے ، یا عارضی طور پر خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، لیکن ان دونوں عارضی مفادات سے کوئی دائمی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔

نیز یہ بھی کہ اگر یہ ظاہری لباس نہ ہو تو انسان کی ظاہری شرمگاہ عیاں ہو جاتی ہے کہ جس کو ضرورت کے وقت کھولنا کوئی نقصان دہ بھی نہیں ہوتا، تاہم تقوی اگر انسان کے معنوی لباس میں شامل نہ ہو تو اس سے انسان کی پوشیدہ پردے والی چیزیں عیاں ہو جاتی ہیں، اور انسان ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔

پھر اللہ تعالی نے فرمایا: ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ یعنی جس لباس کا تمہارے لیے ذکر کیا گیا ہے یہ تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، تمہارے لیے مفید یا نقصان دہ چیزوں کی یاد دہانی کروا دی گئی ہے ، نیز یہ بھی کہ اپنے ظاہری لباس کی طرح اپنے باطن کو بھی بہتر بنائیں۔

اسی طرح اللہ تعالی نے اولاد آدم کو خبردار کیا کہ دیکھنا کہیں تمہارے ساتھ بھی شیطان وہی حرکت نہ کرے جو تمہارے والد آدم علیہ السلام کے ساتھ کی اور فرمایا: يَا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ  وہ اس طرح کہ تمہیں نا فرمانی اچھائی بنا کر دکھا دے، تمہیں نافرمانی کی دعوت دے، اسی کی رغبت دلائے اور تم اس کی بات مان کر اس کے پیچھے مت لگ جانا، جیسے کہ :  كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ  تمہارے والدین کو جنت سے نکال کر عالی شان محلات سے گھٹیا دنیا کی طرف اتروا دیا، تو شیطان تمہارے بارے میں یہ حرکت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ اس میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑے گا وہ جہاں تک اس کا بس چلا تمہیں فتنے میں ملوث کر کے رہے گا ، اس لیے تم ذہنی طور پر تیار رہو کہ اس سے ہر وقت بچ کر رہنا ہے، تم شیطان کی چالوں سے دور ہی رہو، اور کسی بھی ایسی جگہ سے کامل بیدار مغزی کے ساتھ گزرو جہاں سے شیطان کے وار کا خدشہ ہو۔

کیونکہ شیطان ہمہ وقت تمہاری گھات میں لگا ہوا ہے، إِنَّهُ  شیطان اور  يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ  اور جنوں پر مشتمل شیطانوں کا ٹولہ تمہیں  مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ   وہاں سے بھی دیکھ سکتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے، ہم نے شیاطین کو بے ایمان لوگوں کا دوست بنایا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص میں ایمان نہ ہو اس کا اور شیطان کا آپس میں دوستانہ تعلق ہے۔
اسی لیے فرمایا: إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ * إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ 
ترجمہ: اس کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں  [99] اس کا بس تو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اللہ کے شریک بناتے ہیں ۔ [النحل: 99- 100]"

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب