الحمد للہ.
سنن نسائی: (1364)، ترمذی: (806)، ابو داود: (1375)، اور ابن ماجہ: (1327) میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مری ہے کہ: (ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ رمضان کا روزہ رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پورا مہینہ قیام نہیں کروایا اور باقی 7 دن رہ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایک تہائی رات تک قیام کروایا، پھر چھٹی رات کو بھی آپ نے ہمیں قیام نہیں کروایا، پھر جب پانچویں رات آئی تو آپ نے ہمیں تقریباً آدھی رات تک قیام کروایا، تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اگر آپ ہمیں بقیہ رات بھی قیام کروا دیتے تو اچھا تھا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: آدمی جب امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام چلا جائے تو اس کے لیے ساری رات قیام شمار کیا جائے گا۔) اس حدیث کو البانی نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث میں مذکور اجر اس وقت ملے گا جب امام کے ساتھ آغاز میں شامل ہو اور پوری تراویح میں ساتھ رہے، محض آخری چار رکعت پانے سے اجر نہیں ملے گا، اگر چہ امام ان رکعات کے بعد چلا بھی جائے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر کوئی شخص رمضان میں رات کے اول حصے میں ایک مسجد میں نماز ادا کرتا ہے اور آخری حصے میں دوسری مسجد میں نماز ادا کرتا ہے تو کیا اسے بھی یہی اجر ملے گا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام چلا جائے -یعنی رمضان- میں تو اس کے لیے ساری رات قیام کا ثواب لکھ دیا جائے گا۔
چنانچہ یہ شخص پہلے امام کے ساتھ نماز ادا کرے، پھر دوسرے کے ساتھ ادا کرے تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ امام کے چلے جانے کے تک قیام میں رہا؛ کیونکہ اس شخص نے اپنا قیام دو اماموں کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔
تو اس لیے ایسے شخص کے بارے میں کہا جائے گا کہ آپ رات کے اول حصے میں ایک ہی امام کے ساتھ قیام کریں اور آخر تک اسی کے ساتھ رہیں، یا پھر آپ اجر سے محروم ہو جائیں گے۔" ختم شد
"اللقاء المفتوح" (176/ 16)
لیکن اگر آپ کی ملازمت کا وقت ایسا ہے کہ آپ ملازمت کے ساتھ ایک ہی مسجد میں مکمل تراویح نہیں پڑھ سکتے تو ان شاء اللہ آپ کی نیت اور عمل کے مطابق آپ کو اجر ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
ہماری اللہ تعالی سے دعا کہ آپ کی اور ہماری عبادات قبول فرمائے۔
واللہ اعلم