سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اپنی ساس کو ٹیلی فون پر کہا کہ: "تم اسے کہہ دو: طلاق، طلاق، طلاق"

سوال

میری ہمشیرہ امید سے ہیں انہیں میرے بہنوئی نے ٹیلی فون پر طلاق دے دی ، اس کے لیے انہوں نے ٹیلی فون پر میری والدہ سے کہا کہ: "تم اسے کہہ دو: طلاق، طلاق، طلاق" تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ کیونکہ وہ اس وقت غصے کی حالت میں تھا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند کی گفتگو سے تو یہاں یہی لگتا ہے کہ اس نے طلاق دے دی ہے، اور یہاں اس نے صرف اتنا کیا ہے کہ طلاق کی خبر دے دے، اور اس کام کے لیے اس نے اپنی ساس کو ذمہ داری سونپی ہے۔

اس بنا پر : جب سے خاوند نے طلاق دی اسی وقت سے طلاق ہو گئی، چاہے اب بیوی کی قریبی رشتہ دار اسے طلاق کی خبر نہ بھی دیں۔

جیسے کہ " المبسوط " از علامہ سرخسی (6/141) میں ہے کہ:
"اگر کوئی خاوند یہ کہے کہ: میری بیوی کو خبر دے دو کہ اسے طلاق ہے، تو اس کو طلاق ہو گئی ہے چاہے بیوی کو اطلاع کوئی کرے یا نہ کرے۔" ختم شد

اسی طرح "المدونۃ"(2/78) میں ہے کہ:
"یہ بتلائیں کہ ایک آدمی نے دوسرے کو کہا کہ: میری بیوی کو اطلاع دے دو کہ اسے طلاق ہے، تو اس صورت میں طلاق کب واقع ہو گی؟ جس دن بیوی کو اطلاع ملے گی یا جس دن اطلاع دینے کا کہا؟
تو اس پر انہوں نے کہا کہ: امام مالک کا موقف یہ ہے کہ جس دن اطلاع دینے کا کہا اسی دن سے طلاق ہو جا ئے گی۔
تو اس پر میں نے کہا: اگر وہ اسے بتائے ہی نہ ، تو؟
انہوں نے کہا: امام مالک کے موقف کے مطابق طلاق پھر بھی ہو جائے گی، اگرچہ وہ خبر نہ دے؛ کیونکہ امام مالک نے ایک شخص کے بارے میں فرمایا کہ: ایک شخص نے اپنی بیوی کے پاس طلاق کی اطلاع دینے کے لیے اپنا قاصد بھیجا کہ اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی ہے، لیکن قاصد اس پیغام کو چھپا لیتا ہے، تو اس کے چھپانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؛ کیونکہ عورت کو طلاق ہو چکی ہے۔" ختم شد

دوم:
اگر خاوند نے اپنی بیوی کو کہا کہ: "تمہیں طلاق، طلاق، طلاق" تو اس سے صرف ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (96194) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

غصے کی حالت میں طلاق کے متعلق کچھ تفصیل ہے، اور اس بارے میں ہماری ویب سائٹ پر یہی موقف اپنایا گیا ہے کہ اگر غصہ اتنا ہو کہ انسان کو خود ہی پتا نہ چلے کہ وہ کیا بول رہا ہے، یا پتا تو چلے لیکن پھر بھی غصہ اتنا ہو کہ طلاق تک نوبت پہنچ گئی، اور اگر غصہ نہ ہوتا تو طلاق نہ دیتا، تو ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (45174) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اگر آپ کسی ایسے علاقے میں ہیں جہاں پر شرعی عدالتیں موجود ہیں تو آپ انہی شرعی عدالتوں سے رجوع کریں، تا کہ اس طلاق کے بارے میں قاضی خود فیصلہ کرے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب