الحمد للہ.
جب کوئی مسلمان قربانی کے لیے کسی بکری وغیرہ کو معین کر دے اور کوئی اس بکری کو اس کی اجازت کے بغیر ذبح کر دے تو اس کی قربانی صحیح ہو گی، بشرطیکہ اسے ذبح کے وقت ہی ذبح کیا گیا ہو ، اور ذبح کرنے والا قربانی کے مالک کی طرف سے ہی ذبح کر رہا ہو۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (5 / 105) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ قربانی ذبح کرتے ہوئے نیابت جائز ہے بشرطیکہ نیابت کرنے والا مسلمان ہو" ختم شد
اصولی طور پر تو نیابت کی اجازت زبان سے بول کر ہی دی جاتی ہے، لیکن عرف میں کوئی اور طریقہ بھی ہو تو صحیح ہو گی۔
جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شرعی قواعد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عرف میں سمجھی جانے والی اجازت بھی وہی حکم رکھتی ہے جو زبان سے بول کر دی جاتی ہے۔" ختم شد
"مدارج السالكين" (2 / 1019)
یہاں صورت مذکورہ میں عرف کے ساتھ ساتھ آپ کی کیفیت اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ آپ نے اپنے والد کو اجازت دی ہوئی تھی کہ وہ آپ کی طرف سے آپ کی قربانی ذبح کریں گے، تو اس صورت میں یہ قربانی آپ کی طرف سے صحیح ہو گی۔
علامہ قدوری حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے حنفی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: جب کوئی کسی کی قربانی اس کی اجازت کے بغیر ذبح کر دے تو یہ مالک کی طرف سے کافی ہو گی، اور ذبح کرنے والے کو ضامن نہیں بننا پڑے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: قربانی تو صحیح ہوگی لیکن ذبح کرنے والے کو کمی کوتاہی پر ضامن بننا پڑے گا، اور مالک اس زر ضمانت کو صدقہ کر دے گا۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ: یہ ذبیحہ قربانی پر ہی ذبح ہو ا ہے اس لیے ذبح کرنے والا ضامن نہیں ہو گا۔۔۔
عام طور پر انسان اپنی قربانی خود نہیں کرتا بلکہ کسی دوسرے کو نائب بناتا ہے، اور اس پر اسے اجرت بھی دیتا ہے۔ کبھی شرعی طور پر قربانی کرنا لازم ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں قربانی کا مالک اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کوئی بھی اس کے لیے یہ کام کر دے اور کوئی ذبح کر بھی دیتا ہے اور اس ذبح کرنے والے سے کوئی بھی قربانی کے عوض کا مطالبہ بھی نہیں کرتا، تو گویا ذبح کرنے والے کو عرف کے اعتبار سے قربانی ذبح کرنے کی اجازت مل چکی تھی، اور عُرفاً کسی کو اجازت ملی ہوئی ہو تو یہ ایسی ہی جیسے کسی نے زبان سے بول کی اجازت دی ہے۔" ختم شد
"التجريد" (12 / 6341)
اسی طرح علامہ ابو عبد اللہ خرشی مالکیؒ کہتے ہیں:
"نیابت کی اجازت جس طرح الفاظ بول کر دی جا سکتی ہے اسی طرح عرف عام سے بھی اجازت مل جاتی ہے ا س صورت میں عرف عام زبانی اجازت کے قائم مقام ہوتا ہے۔ لیکن اگر جانور ذبح کرنے والا یا اونٹ نحر کرنے والا شخص قربانی کے مالک کا عزیز رشتہ دار ہو اور یہ رشتہ دار عام طور پر دیگر لوگوں کے کام بھی کرتا رہتا ہو تو وہ قربانی کے مالک کی طرف سے کافی ہو گی، یہ فقہائے مالکیہ کے ہاں مشہور موقف ہے۔" ختم شد
"شرح مختصر خليل" (3 / 43)
اسی طرح امام نووی شافعیؒ کہتے ہیں:
"اگر کوئی اجنبی شخص خود سے ہی کسی کی معینہ قربانی ؛ قربانی کے وقت میں ہی ذبح کر دے یا ہدی وقت ہونے پر ذبح کر دے تو مشہور موقف یہی ہے کہ وہ قربانی ہو جائے گی ۔۔۔ کیونکہ اس معینہ قربانی کو ذبح کرنے کے لیے نیت کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ اگر قربانی کے مالک کی بجائے کوئی اور اسے ذبح کر دے تو قربانی ہو جائے گی، بالکل ایسے ہی جیسے نجاست کو زائل کرنے کا حکم ہے۔" ختم شد
"روضة الطالبين" (3 / 214)
اسی طرح علامہ مرداوی حنبلیؒ کہتے ہیں کہ:
"اگر کوئی شخص قربانی ذبح کرنے کے وقت میں بغیر اجازت کے قربانی ذبح کر دے تو قربانی ہو جائے گی، ذبح کرنے والا اس کا ضامن نہیں ہو گا۔
یعنی مطلب یہ ہے کہ: اگر قربانی کے مالک کی بجائے کوئی اور شخص قربانی ذبح کرتے ہوئے کبھی مالک کی جانب سے نیت کرے اور کبھی کسی کی طرف سے بھی نیت نہ کرے اور کبھی اپنی طرف سے قربانی کی نیت کر لے تو ان تمام صورتوں میں قربانی کرنے والا شخص مالک کی طرف سے قربانی ذبح کر دے تو یہ مالک کی طرف سے کافی ہو گی اور ذبح کرنے والا کسی چیز کا ضامن نہیں ہو گا، یہی حنبلی فقہی مذہب ہے، اور حنبلی فقہائے کرام کا یہی موقف ہے، نیز صاحب کتاب الفروع سمیت دیگر اہل علم نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔" ختم شد
"الإنصاف" (9 / 387)
واللہ اعلم