سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک بچہ اپنی ماں کے پاس زیر تربیت ہے، اس کا والد چاہتا ہے کہ اپنے بیٹے کے پاس رات گزارے۔

سوال

میری ایک قریبی رشتہ دار کو اس کے خاوند نے طلاق بائنہ دے دی ہے، اس نے اپنے سابقہ خاوند کو مکمل اجازت دی ہوئی ہے کہ کسی بھی وقت اپنے بچوں سے مل سکتا ہے، چاہے روزانہ آ جائے، لیکن وہ بچوں کو ان کے والد کے ساتھ رات نہیں گزارنے دیتی، لیکن اس آدمی کا اصرار ہے کہ بچے اس کے پاس رات گزاریں چاہے ہفتے میں ایک ہی رات کیوں نہ ہو، واضح رہے کہ اس کے بچوں میں دو بیٹیاں ہیں، ایک کی عمر 10 سال ہے اور دوسری کی عمر 7 سال ہے، تو کیا رات گزارنے سے ممانعت پر اس عورت کو بھی گناہ ہو گا؟ کیا اس کا یہ اقدام شریعت سے متصادم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ اگر بچے اپنی والدہ کے پاس زیر تربیت ہیں تو والد کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بچوں سے ملے اور انہیں دیکھے۔

جیسے کہ: "الموسوعة الفقهية الكويتية" (17 / 317) میں ہے کہ:
"جب میاں بیوی میں جدائی ہو جائے تو دونوں ہی اپنے بچوں کو مل سکتے ہیں اور انہیں دیکھ سکتے ہیں یہ دونوں کا مسلمہ حق ہے، اس پر تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے، تاہم اس کی تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے۔" ختم شد

اسی طرح دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات کے فتاوی: (21 / 205) میں ہے کہ:
"جب بیوی خاوند کے گھر سے چلی جائے یا مثال کے طور پر طلاق کی صورت میں جدائی ہو چکی ہو اور دونوں کی اولاد بھی ہو تو شریعت کی رو سے ایک دوسرے کو بچوں کو دیکھنے اور ملاقات سے روکنا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ اگر بچہ ماں کے پاس زیر تربیت ہے: تو والدہ بچے کے والد کو ملنے اور ملاقات کرنے سے نہیں روک سکتی؛ کیونکہ اللہ تعالی نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى 
ترجمہ: اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بھی۔[النساء: 36]

ایک حدیث میں ہے کہ: (جس شخص نے ماں اور بچوں کے درمیان جدائی ڈالی تو اللہ تعالی روزِ قیامت اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا)
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
بکر ابو زید،    صالح الفوزان،  عبد اللہ غدیان، عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ" ختم شد

اس بنا پر اگر بچیوں کی والدہ انہیں اپنے والد سے ملنے کی اجازت دے رہی ہے تو وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے، رات گزارنے کی اجازت دینا اس پر لازمی نہیں ہے؛ خصوصاً ایسی صورت میں کہ اسے خرابی کا خدشہ بھی ہو، مثلاً: خطرہ ہو کہ والد اپنی بچیوں کو والدہ کے خلاف بھڑکا دے گا، یا انہیں اس بات پر راضی کر لے گا کہ وہ باپ کے ساتھ رہنے لگ جائیں، یا اسی طرح کی کوئی اور خرابی پیدا ہو جائے۔

تاہم اگر بچیوں کی والدہ رات گزارنے کی اجازت دے دے تو یہ بھی جائز ہے؛ کیونکہ بچوں کی تربیت ماں کا حق ہے، اس پر واجب نہیں ہے، تو اگر ماں چاہے تو وہ اپنے حقوق سے بچیوں کے والد کے مفاد میں دست بردار ہو جائے۔

جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بچوں کی تربیت مربی کا حق ہے اس پر واجب نہیں ہے۔

اس بنا پر اگر کوئی چاہے کہ وہ اپنے حق سے کسی دوسرے کے لیے دست بردار ہو جائے تو یہ اس کے لیے جائز ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (13 / 536)

آپ کی موجودہ حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے مشورہ اور نصیحت یہ ہے کہ اگر والد نیک آدمی ہے، اس کے بارے میں یہ بھی خدشہ نہیں ہے کہ بچیوں کو اپنی ماں کے خلاف بھڑکا دے گا، تو ایسی صورت میں بچیوں کو باپ کے ساتھ رات گزارنے کی اجازت دے دینی چاہیے، اس سے لڑائی جھگڑا بھی ختم ہو گا اور بیٹیوں پر بھی برے اثرات نہیں ہوں گے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب