الحمد للہ.
تجارت اور دیگر جائز ذرائع کے ذریعے دولت جمع کرنا جائز ہے، مسلمان کو نیت درست ہونے کی وجہ سے مباح کام کرنے پر بھی اجر ملتا ہے ؛ کیونکہ لوگوں کو ان کی نیتوں کے مطابق ہی بدلہ دیا جاتا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو اسی کا اجر ملے گا جس کی اس نے نیت کی تھی۔) بخاری: (1) مسلم: (1907)
ترکے کی دولت کے متعلق لوگوں کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: ایک ایسا شخص جو دولت اس نیت سے جمع کرتا ہے کہ اپنے اہل خانہ اور زیر کفالت لوگوں کے ساتھ بھلائی ہو، اس کے مرنے کے بعد بھی وہ غنی رہیں اور کسی کے محتاج نہ ہوں، انہیں دوسروں کے مال و دولت کو دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو، اپنی اس ساری محنت میں اللہ تعالی سے اجر و ثواب کی امید رکھے، تو ایسا شخص ورثا کے لیے چھوڑے ہوئے مال پر اجر پائے گا؛ کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالی کے بندوں کے ساتھ بھلائی کی ہے تو اللہ تعالی بھی اس کے بدلے میں اس کے ساتھ بھلائی فرمائے گا چنانچہ اسے ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے گا۔
فرمانِ باری تعالی بھی ہے کہ:
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
ترجمہ: بھلائی کا بدلہ بھلائی ہی ہوتا ہے۔[الرحمن: 60]
علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ترجمہ: بھلائی کا بدلہ بھلائی ہی ہوتا ہے۔[الرحمن: 60] کا مطلب یہ ہے کہ: جو شخص خالق کی بندگی میں حسن کارکردگی دکھائے، خالق کے بندوں کا بھلا کرے تو اللہ تعالی بھی اسے بدلے میں ڈھیروں اجر و ثواب ہی عنایت فرمائے گا، اسے بڑی کامیابی سے نوازے گا، دائمی نعمتوں اور سلامتی والی زندگی عطا فرمائے گا۔" ختم شد
"تفسیر سعدی" (ص 831)
سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حجۃ الوداع والے سال میری عیادت کے لیے آئے تھے، میں ان دونوں سخت بیمار تھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: مجھے تکلیف بہت زیادہ ہے، اور میرے پاس دولت بھی کافی ہے، جبکہ میرے ورثا میں میری بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں ہے تو کیا میں اپنی دولت کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہیں)۔ میں نے کہا: آدھا کردوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہیں)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ہی فرمایا: (ایک تہائی صدقہ کرد و ، اگرچہ ایک تہائی بھی بہت بڑا ہے)، یا فرمایا: (زیادہ ہے۔ آپ اپنے ورثا کو غنی چھوڑ کر جائیں یہ اس بات سے بہتر ہے کہ آپ انہیں غربت میں پھنس کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے چھوڑ کر جائیں۔ نیز یقیناً آپ رضائے الہی کے حصول کے لیے جو کچھ بھی خرچ کریں آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا، حتی کہ آپ کو اس کا اجر بھی ملے گا جو آپ اپنی اہلیہ کے منہ میں لقمہ ڈالیں گے۔)" اس حدیث کو بخاری: (1295) اور مسلم: (1628) نے روایت کیا ہے۔
ابن ہبیرہ رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (یہ بہتر ہے کہ تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ۔) اس بات کی دلیل ہے کہ اگر انسان کے لیے ممکن ہو تو اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ کر جانا انہیں غریب چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے؛ کیونکہ مخلوق تو ساری ہی اللہ تعالی کی پروردہ ہے، اب یہ شخص جو اپنا مال اللہ تعالی کی کسی مخلوق کے لیے صدقہ کرتے ہوئے چھوڑ کر جا رہا ہے یہ بھی اللہ تعالی کی ہی کسی مخلوق کے لیے صدقہ کر رہا ہے۔ اور جو اس کے ورثا ہیں وہ بھی اللہ تعالی کی پروردہ مخلوقات میں شامل ہیں، چنانچہ اگر یہ شخص اپنا ترکہ صدقہ کرنے کی پختہ نیت کر بھی چکا ہے تو پھر بہتر یہ ہے کہ پہلے یہ مال اپنے ایسے رشتہ داروں کو دے جن پر یہ صدقہ بھی کر سکے اور ان صدقے کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی ہو، ویسے بھی انسان اپنی زندگی میں بھی اپنے وارثوں کے لیے کماتا ہے، چنانچہ انسان نے اپنی زندگی وارثوں کے لیے جد و جہد میں گزار دی، تو اگر مرنے کے بعد بھی کوئی چیز وارثوں کے لیے چھوڑ جاتا ہے تو تب بھی وہ اپنے ترکے کی وجہ سے اپنوں کے لیے جد و جہد کرنے والا شمار ہو گا، تبھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا: (یہ بہتر ہے کہ تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ۔)" ختم شد
"الإفصاح" (1 / 325)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں فقیر حالت میں چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔) یعنی مطلب یہ ہے کہ: تم اپنی دولت جمع کر کے رکھو ، اسے صدقہ میں نہ دو تا کہ جب تم فوت ہو جاؤ تو وارث اس کے مالک بن جائیں اور غنی ہو جائیں یہ بہتر ہے اس چیز سے کہ وہ غربت میں ہوں اور آپ ان کے لیے کچھ نہ چھوڑیں اور وہ لوگوں کے سامنے ہتھیلی پھیلاتے پھریں، یعنی لوگوں سے مانگتے پھریں کہ ہمیں کچھ دو دے۔
اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ میت اگر اپنے ورثا کے لیے مال چھوڑ کر جائے تو یہ میت کے لیے بہتر ہے۔
انسان کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر اس نے ترکے میں دولت چھوڑی اور ورثا اس کے زبردستی وارث بھی بن گئے تو اب اس میت کے لیے اس میں سے کوئی اجر نہیں ہو گا! بلکہ اسے اجر ملے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تو یہ بھی فرمان ہے کہ: (یقیناً تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں غربت کی حالت میں چھوڑ دو۔۔۔) اس لیے کہ اگر تم وارثوں کے لیے مال چھوڑو تو اس سے وارث استفادہ کریں گے، اور یہاں وارث قریبی رشتہ دار ہیں، اور اگر زندگی میں ہی صدقہ کر دو تو رشتہ داروں کے علاوہ کوئی اور لوگ اس سے استفادہ کریں گے، جبکہ رشتہ دار پر صدقہ کرنا غیروں پر صدقہ کرنے سے افضل ہے؛ کیونکہ رشتہ دار پر صدقہ کرنے سے صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا اجر ملتا ہے۔" ختم شد
"شرح رياض الصالحين" (1 / 44 - 45)
دوسری قسم: ایسا شخص ہے جو مال کو جمع کرتا رہا ہے اور خرچ کرنے کی بجائے بخل سے کام لے، اس پر فخر بھی کرے، اور پھر جہالت و حسد کی وجہ سے یہ بھی تمنا رکھے کہ اس کے بعد اس کا کوئی رشتہ دار اس سے استفادہ نہ کرے، بالخصوص ایسی صورت میں جب اس کی اولاد بھی نہ ہو، اور اپنی اس نیت کی دلیل یہ دے کہ اس اکیلے نے یہ سب کچھ کمایا ہے، اس کے رشتہ داروں نے نہیں!
تو ایسے شخص کے بارے میں خدشات ہیں؛ کیونکہ اس ترکے کے بارے میں اس کی کوئی اچھی نیت نہیں ہے، وہ تو اپنے رشتہ داروں کو فائدہ بھی نہیں پہچانا چاہتا ۔
واللہ اعلم