جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

جس مریض کے جسم پر انسولین پمپ کے لیے چپکنے والی ٹیپ لگی ہوئی ہے تو وہ غسل کیسے کرے؟ اتارنے پر نئی لگانی پڑتی ہے جو کہ بہت مہنگی ہے۔

سوال

مجھے ذیابیطس ہے اور میں انسولین پمپ پہنتا ہوں، (جسم سے پائپ کے ذریعے جڑنے والی مشین ہے، اور یہ خود بخود جسم کو انسولین فراہم کرتی ہے اور سارا دن خون میں شوگر کو مستحکم رکھتی ہے) اور گلوکوز مانیٹر، (جو جسم سے منسلک ایک چھوٹا سینسر ہے جو خون میں شکر کی سطح کو مسلسل مانیٹر کرتا ہے)۔ وہ دونوں ایک چپکنے والی ٹیپ کے ذریعے جسم سے منسلک ہوتے ہیں اور ہر 3 یا 7 دن بعد یہ ٹیپ تبدیل کی جاتی ہے۔ اس ٹیپ کو اتارنا مشکل نہیں ہے لیکن بات یہ ہے کہ ایک بار جب آپ ٹیپ اتار لیتے ہیں تو آپ کو نئی استعمال کرنی پڑتی ہے، اور یہ بہت مہنگی ہے جو قوت خرید سے باہر ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ چونکہ ٹیپ کسی زخم کی وجہ سے نہیں لگائی جاتی، بلکہ یہ محض ایک سہولت ہے اور واٹر پروف ہے، تو کیا اسے پہن کر غسل کرنا جائز ہے، یہ جانتے ہوئے کہ جلد تک پانی نہیں پہنچے گا؟ اس کے ساتھ یہ بھی کہ اگر کوئی شخص اس دوران ایسا کام عمداً کرنا چاہے جس سے غسل واجب ہو جاتا ہے جیسے خود لذتی اور جماع ۔ تو کیا وہ پورے سات دن انتظار کرے تا کہ ایک ہی دن میں ٹیپ اترے اور انسان جماع سے فارغ ہو جائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

غسل میں پورے جسم پر پانی بہانا لازم ہوتا ہے، چنانچہ اگر جسم پر کوئی ایسی ٹیپ لگی ہوئی ہو جس کو اتارنے سے نقصان نہیں ہو گا تو اسے اتارنا لازم ہے۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/173)میں کہتے ہیں:
"زخم پر چپکی ہوئی ٹیپ کے متعلق قاضی کہتے ہیں: اگر اسے اتارنے میں کوئی ضرر نہ ہو تو پھر اسے اتارے گا، اور صحیح حصے کو دھو کر زخم والی جگہ کے لیے تیمم کرے گا، اور زخم کی جگہ پر مسح کرے گا، لیکن اگر ٹیپ اتارنے کی وجہ سے نقصان ہو تو پھر اس کا حکم پٹی والا ہو گا اور اس پر مسح کر لے گا۔" انتہی

تو یہ اس وقت ہے جب زخم پر یہ ٹیپ لگی ہوئی ہو، لیکن اگر یہ ٹیپ زخم پر نہ لگی ہوئی ہو تو پھر بالاولی اسے اتارنا ہو گا۔

لیکن اگر اس ٹیپ کو اتارنے کی وجہ سے واضح طور پر مال کا ضیاع ہے؛ کیونکہ یہ ٹیپ بہت مہنگی ہے تو پھر اسے جسم پر لگا رہنے دیا جائے اور اس جگہ کی طرف سے تیمم کرے تا کہ مالی نقصان نہ ہو۔

جیسے کہ اخصر المختصرات میں ہے کہ: "یا پانی کے استعمال ، یا تلاش میں جسمانی، یا مالی یا ان دونوں کے علاوہ کسی اور قسم کا نقصان ہو ۔ "

اس کی شرح " كشف المخدرات" (1/ 81) میں ہے کہ:
"یعنی پانی کے استعمال سے جسمانی نقصان کا خدشہ ہو یا پانی کی تلاش سے جسمانی نقصان ہو جیسے کہ انسان زخمی بھی ہو اور سردی بھی بہت زیادہ ہو، یا قافلے کے چھوٹ جانے کا خدشہ ہو، یا پانی استعمال کرنے پر خود یا کسی اور قابل احترام جاندار یعنی انسان یا جانور کے پیاسا رہنے کا امکان ہو، یا پانی کی آٹا گوندھنے یا کھانا بنانے کے لیے ضرورت پڑے، یا پانی بہت ہی مہنگا دستیاب ہو کہ عمومی قیمت سے زیادہ وصول کی جا رہی ہو۔" انتہی

تو یہاں پر فقہائے کرام نے پانی کی قیمت عمومی قیمت سے زیادہ ہونے کو تیمم کے لیے عذر شمار کیا ہے۔

چنانچہ اگر آپ کو بھی یہ دونوں آلات ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے، اور یہ ٹیپ بہت مہنگی ہے، تو جب آپ غسل کریں تو ٹیپ لگی ہوئی جگہ کے بدلے میں آپ تیمم کر لیں کہ وہاں پانی نہیں پہنچے گا، اور بقیہ جسم کو دھو لیں، بالکل ایسے ہی جیسے پٹی ضرورت کی جگہ سے بڑھ جائے تو [وہاں بھی تیمم کرتے ہیں۔ مترجم] اسی طرح یہاں ہو گا؛ کیونکہ یہاں ٹیپ بھی زخم پر نہیں ہے ، اور اسے ہٹانے سے کوئی نقصان نہیں ہے اس لیے اس پر مسح نہیں ہو گا البتہ اس کی طرف سے تیمم کیا جائے گا۔

دوم:
جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ جماع کرنے کی وجہ سے غسل کرنا پڑے گا اور تیمم کی ضرورت ہو گی، بہت سے فقہائے کرام نے پانی نہ پانے والے کو بھی بلا کراہت جماع کی اجازت دی ہے اور کہا کہ: جماع کے بعد تیمم کر لے۔

جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (2/ 209) میں کہتے ہیں:
"امام شافعی رحمہ اللہ الام میں اور شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں: مسافر کے لیے اپنی اہلیہ سے جماع کرنا جائز ہے اگر چہ اس کے پاس پانی نہ بھی ہو، وہ اپنی شرمگاہ دھو لے اور تیمم کرے، ہمارے شافعی فقہائے کرام بلا کراہت جماع کے جواز کے قائل ہیں۔۔۔ یہ ہمارے موقف کی وضاحت ہے۔

ابن المنذر رحمہ اللہ نے بھی سیدنا ابن عباس، جابر بن زید، حسن بصری، قتادہ، ثوری، اوزاعی، اصحاب رائے، احمد، اسحاق وغیرہ سے جماع کا جواز نقل کیا ہے اور اسی موقف کو ابن المنذر نے پسند بھی کیا ہے۔

علی بن ابی طالب ، ابن مسعود، ابن عمر رضی اللہ عنہم اور زہری سے منقول ہے کہ پانی کے بغیر مسافر جماع نہیں کر سکتا۔ جبکہ امام مالک کہتے ہیں کہ: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ مسافر اپنی اہلیہ سے جماع کرے اور اس کے پاس پانی نہ ہو۔ اسی طرح عطاء کہتے ہیں کہ: اگر پانی اور مسافر کے درمیان 3 راتوں کی مسافت ہو تو پھر بیوی سے جماع نہ کرے، لیکن اگر زیادہ مسافت ہو تو پھر جائز ہے۔ جبکہ امام احمد سے کراہت کے متعلق دونوں قسم کا موقف منقول ہے۔
سب کے بر خلاف ہماری دلیل وہ ہے جسے ابن المنذر نے دلیل بنایا ہے کہ: جماع کرنا مباح عمل ہے، لہذا اس مباح عمل سے دلیل کے ساتھ ہی منع کر سکتے ہیں یا اسے مکروہ کہہ سکتے ہیں۔ لہذا یہی بات دلیل کے لیے معتبر ہے۔

جب کہ سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث کہ: ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک شخص سفر میں ہے لیکن پانی نہیں ہے تو کیا بیوی سے ہمبستری کر سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند احمد میں روایت کیا ہے، لیکن اس حدیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا؛ کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے، اس میں حجاج بن ارطاۃ راوی ہے جو کہ ضعیف ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد

تو اگر آپ کے لیے یہ چیز غسل واجب میں جائز ہے تو عام غسل میں تو بالاولی جائز ہو گا؛ اس لیے مسنون غسل میں بھی آپ پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی عمومی غسل میں کوئی حرج ہے، نیز آپ پر ان چیزوں میں سے کسی چیز سے رکنا لازم نہیں ہے کیونکہ یہ کام آپ کے لیے مباح ہے جس سے کسی دلیل کی بنیاد پر ہی روکا جا سکتا ہے۔

جبکہ خود لذتی حرام ہے، اور اس سے ہر حالت میں بچنا ضروری ہے، یہاں اس سے بچنا مزید مؤکد ہو جاتا ہے، مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (329 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب