الحمد للہ.
اول: افسانہ نگاری اور فکشن تحریریں لکھنے کا حکم
پہلے سوال نمبر: (174829) میں افسانہ نگاری کے بارے میں تفصیلی طور پر گزر چکا ہے کہ اگر افسانہ اور فکشن با ہدف ہے ،اچھائی اور بھلائی اس سے معاشرے میں پھیلے گی تو افسانہ نگاری جائز ہے۔
دوم: افسانہ نگاری میں آیات اور احادیث درج کرنے کا حکم
ان واقعات میں کتاب و سنت کی نصوص کو استعمال کرنے کے بارے میں یہ ہے کہ اگر انہیں صحیح انداز میں استعمال کیا گیا ہے تو پھر اس میں کوئی مانع نظر نہیں آتا۔
قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کچھ تو ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا معنی اور مفہوم بالکل واضح ہوتا ہے، انہیں سمجھنے کے لیے قاری کو بہت زیادہ علم کی ضرورت نہیں ہوتی، عام طور پر ہر شخص ہی ان آیات کا معنی اور مفہوم سمجھ سکتا ہے، مثلاً: نماز، زکاۃ ، حج اور روزے جیسے فرائض کے متعلق حکم دینے والی آیات، اسی طرح اخلاقیات کا درس دینے والی اور بد اخلاقی سے روکنے والی آیات اور احادیث وغیرہ تو افسانہ نگار ان آیات اور احادیث سے استدلال کر سکتا ہے؛ کیونکہ اس کا معنی اور مفہوم واضح ہے، اس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے کہ کسی گتھی کو سلجھانا پڑے۔
جبکہ کچھ آیات اور احادیث ایسی بھی ہیں جن کو سمجھنے کے لیے ذی شعور اور صاحب علم ہونا ضروری ہے، تو ایسی صورت میں اس کا معنی سمجھنا اور اہل علم سے اس کے بارے میں پوچھنا ضروری ہے، لہذا جاہل شخص ان آیات کو اپنی گفتگو میں بطور دلیل پیش نہیں کر سکتا؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ وہ ایسے مسئلے میں آیت کو دلیل بنا لے جس کی دلیل آیت میں نہیں ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے، ان کے مطابق:
تفسیر کی چار قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جسے عرب اپنی گفتگو سے پہچان جاتے ہیں۔
دوسری قسم وہ ہے جس سے لا علمی کسی کے لیے روا نہیں۔
تیسری قسم وہ ہے جسے صرف اہل علم ہی جانتے ہیں۔
چوتھی قسم وہ ہے جسے صرف اللہ تعالی کی ذات جانتی ہے؛ اس قسم کے جاننے کا کوئی دعوی کرے تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔
اس اثر کو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن جریرؒ نے اپنے تفسیر کے مقدمے میں (1/70) اور (73) پر ذکر کیا ہے، اسی طرح ابن کثیر ؒ نے بھی اسے اپنی تفسیر کے مقدمے (1/14)میں بیان کیا ہے۔
علامہ زرکشیؒ اپنی مایہ ناز کتاب: "البرهان" (2/164-167) میں اس کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"یہ تقسیم صحیح ہے، چنانچہ جس قسم کو عرب اپنی زبان سے پہچان لیتے ہیں یہ وہی قسم ہے جس کو جاننے کے لیے عربی زبان کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، یعنی یہ عربی لغت اور اعراب سے تعلق رکھنے والے امور ہیں۔۔۔
چنانچہ جس تفسیر کا تعلق اس قسم سے ہو تو اس کی تفسیر کے لیے مفسر عربی زبان پر ہی اکتفا کرے گا، اس طرح کی آیات کی تفسیر کسی ایسے شخص کے لیے قطعاً جائز نہیں ہے جسے عربی زبان کی گہرائیوں اور حقیقت کا علم نہیں ہے، یہاں معمولی جانکاری کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی لفظ دو معانی میں مشترک ہو اور اسے صرف ایک ہی معنی کا علم ہو۔
دوسری قسم : جس سے لا علمی کسی کے لیے روا نہیں۔ اس سے وہ آیات مراد ہیں جنہیں سنتے ہی ذہنوں میں آیات کا خاص معنی واضح ہو جائے، اس میں وہ آیات شامل ہیں جن میں شرعی احکامات، عقیدہ توحید کے دلائل، اور ہر وہ قرآنی لفظ شامل ہے جس کا ایک ہی واضح معنی ہے کوئی اور معنی نہیں ہے، انہیں سن کر اللہ تعالی کی مراد فوری معلوم کی جا سکتی ہے۔ تو اس قسم کے حکم میں کوئی اختلاف نہیں نہ ہی اس کی تفسیر میں کوئی پیچیدگی ہوتی ہے؛ کیونکہ فرمان باری تعالی: فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إَلَّا اللهُ ترجمہ: جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ [محمد: 19] سے ہر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ الوہیت میں اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں ہے۔۔۔
اسی طرح یہ بات مسلمہ ہے کہ فرمان باری تعالی : وَأَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ترجمہ: نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو۔[البقرۃ: 43] اس آیت میں نماز اور زکاۃ کی فرضیت کا ذکر ہے۔
تیسری قسم : جسے صرف اللہ تعالی کی ذات جانتی ہے ۔ یعنی اس سے مراد وہ آیات ہیں جن میں غیبی امور کا ذکر ہے؛ مثلاً قیامت آنے کا وقت، بارش نازل ہونے کا وقت ، شکم مادر میں کس طرح کی شخصیت ہے؟ اور روح کی تفسیر وغیرہ۔۔۔
چوتھی قسم :جس کا تعلق علمائے کرام کے اجتہاد سے ہے، عام طور پر علم تفسیر میں جب لفظ تاویل استعمال کیا جاتا ہے تو یہی قسم مراد ہوتی ہے، یعنی قرآنی الفاظ سے کشید ہونے والے نتیجے تک پہنچنا، اسی کو احکام استنباط کرنا، مجمل کی وضاحت کرنا، عموم کی تخصیص کرنا کہتے ہیں، اسی طرح ہر وہ لفظ جس میں دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو ایسی آیات کے بارے میں غیر اہل علم کے لیے اجتہاد کرنا جائز نہیں ہے۔" معمولی اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
واللہ اعلم