الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو شفائے کاملہ عاجلہ سے نوازے، اور آپ کو عافیت عطا فرمائے۔
اگر ٹھنڈے یا گرم پانی سے غسل کرنے کی وجہ سے آپ کی بیماری میں اضافہ ہوتا ہے یا اس سے آپ کی شفایابی میں تاخیر ہوتی ہے تو پھر آپ تیمم کر سکتی ہیں، تیمم کے لیے آپ تھیلی وغیرہ میں باہر سے مٹی لے آئیں اور اسے استعمال کریں، یا پھر اگر دیوار یا چادر وغیرہ پر مٹی پڑی ہوئی ہو تو اس غبار سے بھی تیمم کر سکتی ہیں۔
وضو کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر وضو کے لیے پانی استعمال کرنے سے نقصان ہوتا ہو تو وضو کی جگہ پر آپ تیمم کر سکتی ہیں۔
جیسے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چونکہ شریعت اسلامیہ کی بنیاد آسانی اور سہولت پر رکھی گئی ہے اس لیے عذر والوں کی سہولت کے مطابق اللہ تعالی نے اپنی عبادات میں تخفیف رکھی ہے؛ تا کہ وہ بھی اللہ تعالی کی بندگی بغیر کسی مشقت اور تکلیف کے کر سکیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ترجمہ: اللہ تعالی نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں بنائی۔ [الحج: 78] اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے بارے میں آسانی کا ارادہ رکھتا ہے، وہ تمہارے بارے میں تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔[البقرۃ: 185] اسی طرح اللہ عزوجل کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمہ: اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرو۔[التغابن: 16] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب میں تمہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دوں تو تم اس پر مقدور بھر عمل کرو)، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (بیشک دین آسان ہے۔) تو ان تمام تر شرعی نصوص کی روشنی میں جس وقت مریض پانی سے طہارت حاصل نہ کر سکے، اور غسل نہ کر سکے تو وہ تیمم کر لے، چاہے پانی استعمال نہ کرنے کی وجہ بیماری میں اضافے کا خدشہ ہو یا شفا یابی میں تاخیر ہو یا پانی استعمال نہ کر سکنا ہو؛ ہر حالات میں تیم جائز ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ: اپنے دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر ایک بار مارے، اور پھر اپنی انگلیوں کے اندرونی حصے سے چہرے پر مسح کرے، اور دونوں ہتھیلیوں کے ساتھ اپنی کفوں کا مسح کرے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ترجمہ: اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھوں کو مل لو ۔ [النساء: 43]
اگر کوئی شخص پانی استعمال کرنے سے قاصر ہے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جسے پانی نہیں ملا، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمہ: اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرو۔ [التغابن: 16] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب میں تمہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دوں تو تم اس پر مقدور بھر عمل کرو)" ختم شد
"الفتاوى المتعلقة بالطب وأحكام المرضى" ص 26
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک مریض کو مٹی نہیں ملتی تو کیا وہ دیوار یا بستر پر ہاتھ مار کر تیمم کر لے یا نہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"دیوار بھی [قرآن کریم میں مذکور] صعید طیب میں شامل ہے، لہذا اگر دیوار پتھر یا کچی اینٹوں سے بنی ہوئی ہو تو اس پر ہاتھ مار کر تیمم کرنا جائز ہے۔ اور اگر دیوار پر لکڑی یا پینٹ کا کام کیا گیا ہے تو پھر اس پر مٹی یا غبار کی صورت میں ہاتھ مار کر تیمم کر سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کا تیمم بھی اسی شخص جیسا ہو گا جو زمین پر ہاتھ مار کر تیمم کرتا ہے، کیونکہ مٹی بھی زمین سے نکلنے والا مادہ ہے۔
لیکن اگر لکڑی یا پینٹ کے کام پر غبار نہیں ہے تو پھر یہ [قرآن کریم میں مذکور] صعید طیب میں بالکل بھی شامل نہیں ہے ، اس لیے اس پر ہاتھ مار کر تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
اور بستر کے بارے میں یہ ہے کہ اگر اس پر گرد و غبار لگا ہوا ہے تو پھر تیمم کرنا جائز ہے، اور اگر نہیں تو پھر تیمم بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ صعید طیب میں شامل نہیں ہے " ختم شد
"فتاوى الطهارة" (ص 240)
دوم:
آپ پر قیام، رکوع، سجدہ، اور جلسہ وغیرہ پورے ارکان کے ساتھ نماز ادا کرنا لازمی ہے، چاہے آپ کو کسی ہال کمرے میں رکھا گیا ہے اور چاہے نماز پڑھتے ہوئے آپ کو مرد دیکھ رہے ہوں، بلا عذر کسی بھی رکن کو ترک کرنے سے نماز صحیح نہیں ہو گی۔
مرد کسی جگہ ایسے موجود ہوں کہ ان کی نظر عورت پر نماز پڑھتے ہوئے پڑے تو یہ عورت کے لیے نماز کے ارکان ترک کرنے کا عذر نہیں بن سکتا، عورت نماز پڑھنے کے لیے کھلا اور پورا جسم ڈھانپنے والا لباس پہن لے، بالکل ایسے ہی جیسے آپ گھر سے باہر نکلتے وقت اجنبی مردوں والی جگہوں پر جاتے ہوئے پہنتی ہیں، اور نماز پڑھ لیں۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"عورت اجنبی مردوں کی موجودگی میں نماز کیسے پڑھے؟ جیسے کہ مسجد الحرام میں ہوتا ہے، اسی طرح سفر میں بھی اگر نماز پڑھنی ہو اور راستے میں کوئی ایسی مسجد نہ ہو جہاں خواتین نماز پڑھ سکیں تو کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"عورت پر چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ اپنا مکمل جسم نماز کے دوران ڈھانپنا لازمی ہے، لیکن جب نماز کے دوران اسے اجنبی لوگ دیکھ رہے ہوں تو پھر چہرے اور ہتھیلیوں کو بھی ڈھانپنا لازمی ہے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة"(7/339)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کی عبادات قبول فرمائے، آپ کو مکمل شفا یاب فرمائے، اور عافیت سے نوازے۔
واللہ اعلم