سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

مقتدى كى نماز ميں امام كے ساتھ حالتيں

سوال

ہم ديكھتے ہيں كہ بعض مقتدى نماز ميں امام كى متابعت كرنے سے ليٹ ہو جاتے ہيں، اور بعض مقتدى مثلا سجدہ يا ركوع ميں بعض اوقات امام سے آگے نكل جاتے ہيں، گزارش ہے كہ آپ امام سے آگے نكلنے يا ليٹ ہونے كا حكم بيان كريں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى ہميں اس سے نفع دے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

شيخ محمد ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى الشرح الممتع ميں كہتے ہيں:

مقتدى كى امام كے ساتھ چار حالتيں ہيں:

1 - امام سے آگے نكل جانا.

2 - امام سے پيچھے رہ جانا.

3 - امام كى موافقت كرنا.

4 - امام كى متابعت كرنا.

پہلى حالت:

امام سے آگے نكل جانا:

نماز كے كسى ركن ميں مقتدى امام سے آگے نكل جائے مثلا امام سے قبل سجدہ كر لے، يا پھر امام سے قبل سجدہ سے اٹھ جائے، يا ركوع ميں پہلے چلا جائے، يا پہلے ركوع سے اٹھ جائے، يہ حرام ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان نبى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" تم ركوع اس وقت مت كرو جب تك وہ ركوع نہ كرے، اور سجدہ اس وقت نہ كرو جب تك وہ سجدہ نہ كرے "

اور نھى ميں اصل حرمت ہے، بلكہ اگر كوئى كہنے والا يہ كہے: يہ كبيرہ گناہ ہے، تو كوئى بعيد نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كيا امام سے پہلے سر اٹھانے والا اس سے نہيں ڈرتا كہ كہيں اللہ تعالى اس كا سر گدھے كے سر ميں تبديل كر دے، يا اس كى صورت گدھے كى صورت ميں تبديل كر دے "

يہ وعيد ہے، اور وعيد كبيرہ گناہ ہونے كى علامت ہے.

امام سے سبقت لے جانے والے شخص كى نماز كا حكم:

جب مقتدى ياد اور علم كى حالت ميں امام سے آگے بڑھ جائے تو اس كى نماز باطل ہے، اور اگر جاہل ہو يا بھول جائے تو اس كى نماز صحيح ہے، ليكن اگر امام كو پالينے سے قبل اس كا عذر زائل ہو جائے تو اس پر واپس پلٹنا لازم ہے تا كہ جس ميں اس نے امام سے سبقت كى اسے دوبارہ كر لے، اور اگر ياد ہوتے ہوئے علم ركھتے ہوئے بھى اسے نہ كرے تو اس كى نماز باطل ہے، وگرنہ نہيں.

دوسرى حالت:

امام سے پيچھے رہنا:

امام سے پيچھے رہنے كى دو قسميں ہيں:

1 - كسى عذر كى بنا پر پيچھے رہنا.

2 - بغير كسى عذر كے پيچھے رہنا.

پہلى قسم:

كسى عذر كى بنا پر ہو تو وہ جس ميں پيچھے رہا ہے اسے ادا كرے، اور اس ميں امام كى متابعت كرے اوراس پر كوئى حرج نہيں، حتى كہ اگر پورا ركن يا دو ركن ہوں، اگر كوئى شخص بھول گيا اور غافل رہا، يا پھر امام كو سنا ہى نہيں اور امام اس سے ايك يا دو ركن آگے بڑھ گيا، تو جس ميں وہ پيچھے رہا اسے ادا كرے اور امام كى متابعت، ليكن اگر امام وہاں پہنچ جائے جہاں وہ ہے تو پھر وہ اسے ادا نہ كرے بلكہ امام كے ساتھ رہے، اور امام كى دو ركعتوں امام كى ايك وہ ركعت جس سے وہ پيچھے رہا اور دوسرى وہ جس ميں امام پہنچا ہوا ہے ايك ركعت صحيح ہو گى، اور وہ اپنى جگہ ہى ہے، اس كى مثال درج ذيل ہے:

ايك شخص امام كے ساتھ نماز ادا كر رہا ہے، اور امام نے ركوع كيا اور ركوع اٹھ كر سجدہ بھى كر ليا اور پھر دوسرا سجدہ بھى كيا، اور سجدہ سے اٹھ كر ركعت ميں كھڑا ہو گيا، ليكن مقتدى نے مثلا بجلى چلى جانے كے باعث تكبير دوسرى ركعت ميں سنى، اور فرض كريں كہ يہ نماز جمعہ كى نماز تھى اور وہ امام كى سورۃ فاتحہ سن رہا تھا، پھر بجلى منقطع ہو گئى اور امام نے پہلى ركعت مكمل كر لى، اور دوسرى كے ليے كھڑا ہو گيا اور مقتدى نے گمان كيا كہ اس نے پہلى ركعت ميں ركوع نہيں كيا، اور مقتدى نے سنا كہ امام سورۃ الغاشيۃ كى تلاوت كر رہا ہے " هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ " سورۃ الغاشيۃ ( 1 ).

تو ہم يہ كہينگے كہ: آپ امام كے ساتھ ہى رہيں، امام كى يہ دوسرى ركعت آپ كے ليے باقى مانندہ پہلى ركعت ہو گى، اور جب امام سلام پھيرے تو آپ دوسرى ركعت كى قضاء كر ليں.

اہل علم كا كہنا ہے كہ: اس سے مقتدى كے ليے امام كى دونوں ركعتوں ميں سے وہ ركعت ہو گى جو وہ نہيں پا سكا، كيونكہ اس نے پہلى اور دوسرى ميں امام كى متابعت كى ہے.

اور اگر اسے امام كا اس كى جگہ پر پہنچنے سے قبل علم ہو جائے تو وہ قضاء كے ساتھ امام كى متابعت كرے گا، اس كى مثال يہ ہے كہ:

ايك شخص امام كے ساتھ كھڑا تھا تو امام نے ركوع كيا اور مقتدى نے ركوع كى تكبير نہ سنى، اور جب امام نے سمع اللہ لمن حمدہ كہا تو مقتدى نے سن ليا، تو ہم كہينگے:

ركوع كرو اور ركوع سے اٹھ كر امام كى متابعت كرلو، تو آپ ركعت پالينگے؛ كيونكہ يہ پيچھے رہنا عذر كى بنا پر تھا.

دوسرى قسم:

عذر كے بغير پيچھے رہنا:

يا تو ركن ميں پيچھے رہے يا پھر ركن كے ساتھ پيچھے رہے.

ركن ميں پيچھے رہنے كا معنى يہ ہے كہ: وہ امام كى متابعت ميں پيچھے رہے ليكن وہ اس ركن ميں ہى امام كے ساتھ مل جائے مثلا: امام ركوع ميں چلا جائے اور آپ كى سورۃ كى ايك يا دو آيتيں باقى رہتى ہوں، اور آپ اسے مكمل كرنے لگيں، ليكن آپ نے امام كو ركوع ہى كى حالت ميں پاليا اور اسے كے ساتھ ركوع كر ليں، تو يہاں ركعت صحيح ہے.

ليكن يہ فعل سنت كے مخالف ہے؛ كيونكہ مشروع يہ ہے كہ جب امام ركوع ميں چلا جائے تو آپ ركوع شروع كرديں، اور اس سے پيچھے نہ رہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب وہ ركوع كرے تو تم ركوع كرو "

اور ركن كے ساتھ پيچھے رہنے كا معنى يہ ہے كہ: امام آپ سے ايك ركن سبقت لے جائے، يعنى امام آپ كے ركوع كرنے سے قبل ركوع كر كے ركوع سے اٹھ جائے، تو فقھاء رحمہم اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب آپ ركوع كے ساتھ پيچھے رہ جائيں اور اس كے ركوع سے اٹھ جانے تك ركوع نہ كر سكيں تو آپ كى نماز باطل ہے، جس طرح آپ ركوع كرنے ميں امام سے سبقت لے جائيں، اور اگر آپ سجدہ ميں پيچھے رہ جائيں تو فقھاء كے قول كے مطابق آپ كى نماز صحيح ہے؛ كيونكہ يہ ركوع كے علاوہ كسى اور ركن ميں پيچھے رہنا ہے.

ليكن راجح قول يہ ہے كہ اگر بغير كسى عذر كے ركن سے پيچھے رہ جائيں تواس كى نماز باطل ہے، چاہے وہ ركن ركوع ہو يا ركوع كے علاوہ كوئى اور ركن اس بنا پر؛ اگر امام نے پہلے سجدہ سے سر اٹھا ليا، اور مقتدى سجدہ ميں دعائيں كرتا رہا حتى كہ امام نے دوسرا سجدہ كر ليا تو اس مقتدى كى نماز باطل ہے؛ كيونكہ وہ ركن كے ساتھ پيچھے رہا ہے، اور جب امام ايك ركن آگے نكل جائے تو پھر متابعت كہاں رہتى ہے ؟

تيسرى حالت:

موافقت:

موافقت يا تو اقوال ميں ہوتى ہے، اور يہ موافقت تكبير تحريمہ اور سلام كے علاوہ كہيں بھى نقصان دہ نہيں.

تكبير تحريمہ ميں اس ليے كہ اگر آپ نے امام كے تكبير مكمل كہنے سے قبل تكبير كہى تو اصل ميں آپ كى نماز شروع ہى نہيں ہو گى؛ كيونكہ امام كى تكبير تحريمہ كے ختم ہونے كے بعد آپ كا تكبير تحريمہ كہنا ضرورى ہے.

اور سلام ميں موافقت كے متعلق علماء كرام كہتے ہيں:

پہلى اور دوسرى سلام امام كے ساتھ پھيرنى مكروہ ہے، ليكن اگر آپ نے امام كى پہلى سلام مكمل ہونے بعد پہلى سلام پھيرى اور دوسرى سلام كے بعد دوسرى سلام تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن افضل يہ ہے كہ امام كى دونوں طرف سلام كے بعد سلام پھيرى جائے.

اور باقى اقوال ميں امام كى موافقت كرنا، يا اس سے پہلے يا بعد ميں كرنا كوئى اثرانداز نہيں ہوتا، فرض كريں اگر آپ سنيں كہ امام تشھد پڑھ رہا ہے، اور آپ اس كى تشھد پڑھنے سے سبقت لے گئے ہيں، تو يہ مضر نہيں كيونكہ تكبير تحريمہ اور سلام كے علاوہ اقوال ميں سبقت لے جانا كوئى موثر نہيں اور نہ ہى نقصان دہ ہے.

اور اسى طرح اگر آپ اس سے فاتحہ پڑھنے ميں سبقت لے گئے مثلا آپ نے ظہر كى نماز ميں " والا الضالين " پڑھ ليا، اور امام ابھى " إياك نعبد وإياك نستعين " پڑھ رہا ہو، كيونكہ ظہر اور عصر كى نماز ميں امام كے ليے بعض اوقات لوگوں كو سنانا مشروع ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كيا كرتے تھے.

موافقت كى دوسرى قسم:

افعال ميں موافت كرنا، اور يہ مكروہ ہے.

موافقت كى مثال يہ ہے: جب امام ركوع كے ليے " اللہ اكبر " كہے اور وہ ركوع كے ليے جھكا تو آپ اور امام دونوں ايك ہى وقت ميں ركوع كے ليے جھك گئے، تو يہ مكروہ ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" جب وہ ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور تم اس وقت تك ركوع ميں نہ جاؤ جب تك وہ ركوع ميں نہ چلا جائے "

اور جب امام نے سجدہ كے ليے تكبير كہى تو آپ نے سجدہ كيا اور آپ اور امام دونوں برابر زمين پر پہنچ گئے تو يہ بھى مكروہ ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

" جب تك وہ سجدہ نہ كرے تم سجد مت كرو"

چوتھى قسم:

متابعت:

امام كى متابعت كرنا سنت ہے، اور اس كا معنى يہ ہے كہ: انسان نماز كے افعال ميں امام كے فعل شروع كرنے كے فورا بعد بغير موافقت كے فورا وہ فعل شروع كر دے.

مثلا جب امام ركوع كرے تو آپ بھى ركوع كريں، چاہے آپ نے مستحب قرآت ( سورۃ فاتحہ كے علاوہ ) مكمل نہ كى ہو اگرچہ ايك آيت باقى رہتى ہو كيونكہ قرآت مكمل كرنے سے پيچھے رہيں گے تو آپ مكمل نہ كريں، اور سجدہ ميں جب امام سجدہ سے سر اٹھائے تو آپ بھى امام كى متابعت كريں، آپ كا امام كى متابعت كرنا سجدہ ميں پڑھ كر دعا كرتے رہنے سے افضل ہے؛ كيونكہ آپ كى نماز امام كے ساتھ مرتبط ہے، اور اس وقت آپ كو امام كى متابعت اور پيروى كا حكم ہے. انتھى بتصرف

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 275 ).

مقتدى كو چاہيے كہ جب تك امام ركن ميں چلا نہ جائے مقتدى اس وقت تك اس ركن كو شروع نہ كرے، لھذا وہ سجدہ كے ليے اس وقت تك مت جھكے جب تك امام اپنى پيشانى زمين پر نہ ٹكا لے.

براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سمع اللہ لمن حمدہ كہتے تو ہم ميں سے كوئى بھى سجدہ كے ليے اپنى پيٹھ اس وقت تك نہ جھكاتا جب تك نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سجدہ ميں نہ چلے جاتے، اور پھر ان كے بعد ہم سجدہ ميں جاتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 690 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 474 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب