جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

حج اورعمرہ کرنے کا ارادہ رکھنے والے کے لیے بغیراحرام میقات تجاوز کرنا

سوال

ایک شخص اپنے ملک سے حج اورعمرہ کرنے کے لیے جدہ آیا لیکن اس نے میقات سےاحرام باندھنے کی بجائے جدہ ائرپورٹ پراحرام باندھا تواس کا حکم کیا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شیخ محمدابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کے لیے کچھ مخصوص جگہیں متعین کردیں ہیں کہ جوشخص بھی حج اورعمرہ کرنا چاہے اس کے لیے ان جگہوں سے بغیراحرام کے گزرنا حلال نہيں ، کیونکہ احرام باندھنے سے قبل یہاں سے گزرنا اللہ تعالی کی حدودسےتجاوز ہے ، اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورجوکوئي اللہ تعالی کی حدود سے تجاوز کرے وہ ہی ظالم ہیں البقرۃ ( 229 ) ۔

اورایک مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :

اورجوکوئي حدوداللہ سے تجاوز کرے اس نے اپنے آپ پرظلم کیا الطلاق ( 1 ) ۔

اورصحیحین میں ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہماسے حدیث مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اوراہل شام کے لیے جحفہ ، اوراہل نجدکےلیے قرن منازل ، اوراہل یمن کے لیے یلملم میقات مقرر کیا اورفرمایا :

( یہ اہل میقات کے لیے اوران کے علاوہ جوحج اورعمرہ کرنے کے لیے یہاں سے گزریں ان کے لیے بھی میقات ہیں اورجوان کے اندرہیں اس کے احرام باندھنے کی جگہ اس کا گھر ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1524 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1181 ) ۔

اورعبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اہل مدینہ کے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1183 ) ۔

یہ خبرامرکے معنی میں ہے ہے لیکن صیغہ خبر کے الفاظ میں ہے تا کہ تاکیدااس کی تنفیذ ہو۔

عائیشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کومیقات مقرر فرمایا ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1739 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 1531 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

اورصحیح بخاری میں ہے کہ اہل کوفہ اوراہل بصرہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اورکہنے لگے : اے امیرالمومنین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے قرن ( قرن منازل ) کوحد مقررفرمایا اوریہ ہمارے راستے سے ہٹ کرایک طرف آتا ہے ، اوراگرہم قرن جائيں توہمیں بہت مشقت اٹھانا پڑتی ہے ۔

توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : تم اپنے راستے میں ہی اس کے برابر اورمحاذی جگہ دیکھ لو۔

اس حدیث میں جورکا معنی مائل ہے ۔

لھذا جوکوئي بھی حج اورعمرہ کرنا چاہے توجب وہ ان میقات پرپہنچے یا اس کے محاذی اوربرابر پہنچے تواس پراحرام باندھنا واجب ہے ، چاہےوہ فضائي راستے سے آئے یا بری راستے یا پھر سمندری راستے سے ۔

تواگروہ خشکی کے راستے آرہا ہے تومیقات سے گزرے تووہاں احرام باندھے اوراگروہ میقات سے نہيں گزررہا بلکہ وہ اس کے برابر اورمحاذی ہوتووہاں سے ہی احرام باندھ لے اوراحرام کے لیےغسل اورخوشبووغیرہ کے استعمال کے بعد احرام کی چادریں باندھ لے اوروہاں سے روانہ ہونے سے قبل تلبیہ کہہ لے ۔

اوراگروہ سمندری راستے سے سفر کررہا ہے اگرسمندری جہاز ہے تووہ میقات کے محاذاۃ اوربرابری میں کھڑا ہوگا توغسل وغیرہ کرکے خوشبولگا احرام کی چادریں پہن لے ، اورجہاز کے روانہ ہونے سے قبل تلبیہ کہہ لے ، اوراگرسمندری جہاز میقات کے برابر کھڑا نہيں ہوتا توپھر میقات کے برابر اورمحاذي ہونے سے قبل ہی اسے غسل کرکے احرام باندھ لینا چاہیے اورجب وہ میقات کے برابر اورمحاذاۃ میں پہنچے توتلبیہ کہہ لے ۔

اوراگروہ فضائي راستے سے آرہا ہے وہ ہوائي جہاز پرسوارہونے سے قبل ہی غسل کرلے اورمیقات کے برابر ہونے سے قبل ہی احرام باندھ لے اورجب میقات سے کچھ قبل احرام کی نیت کرتے ہوئے تلبیہ کہہ لے اورمیقات کے برابر ہونے کا انتظار نہ کرے ، کیونکہ ہوائي جہاز میقات سے بہت تيزرفتاری سےگزرتا ہے اورآپ کوکوئي فرصت نہيں دے گا ، اوراس سے قبل ہی اگراحتیاطا احرام باندھ لیں تواس میں بھی کوئي حرج نہيں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: دلیل الاخطاء التی یقع فیھا الحاج والمعتمر