سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کیسے کی

34550

تاریخ اشاعت : 06-02-2004

مشاہدات : 13502

سوال

میرے بہت سے دوستواحباب نے دوسری جنس سے زنا کے بارہ مجھ سے سوال کیا تومیں نے انہیں جواب دیا کہ اسلام میں زنا حرام ہے ، تووہ کہنے لگے کہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی اوران سےشادی کی تھی ، میں نے بہت سی کتب پڑھیں اورانٹرنیٹ پرویپ سائٹ بھی دیکھیں لیکن مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی شادی کےطریقہ نہیں مل سکا ۔
اس شادی کے بارہ میں مجھے اتنا ہی علم ہے کہ خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا نے اپنی کسی لونڈی کوخط دے کربھیجا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطالب کے قریب تھی کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہیں تواس طرح شادی ہوئ ، مجھے ۔
تواب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا ملاقات کی تھی ( کیا ان کے درمیان جماع ہوا تھا ) ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سیرۃ النبویہ کی روایات اس طرف اشارہ کرتی ہيں کہ خدیجہ بنت خویلد بہت ہی ذہین وفطین اورمالدار عورت تھیں ، جن کے کئی ایک تجارتی کام بھی تھے ، ان کی قوم کے لوگ ان سے شادی کے بھی خواہش مند تھے ، لیکن وہ تجارت خود نہیں کرتی تھیں بلکہ وہ لوگوں کوملازم رکھتی جوکہ اس کے تجارتی کام چلاتے تھے ۔

جب خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کوصادق اور امین صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر ملی اور ان کے صدق وامانت کا بھی پتہ چلا تووہ اس کی رغبت کرنے لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تجارتی امورچلائيں ، لھذا ان کی طرف اس کا پیغام بھیجا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موافقت کرلی ۔

اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کا مال تجارت لے کے میدان تجارت میں گۓ اوراس تجارتی سفرمیں خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کا غلام میسرہ بھی ساتھ تھا ، میسرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ نشانیاں دیکھی جواس سفرمیں پیش آئيں توہ مبھوت ہوکررہ گيا واپسی پراس نے جوکچھ بھی دیکھا وہ سب کچھ اپنی مالکہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا بتایا ۔

ان نشانیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم شام کے شہربصری پہنچے توایک درخت کے ساۓ میں پڑاؤ کیا تومیسرہ کوایک راھب کہنے لگا اس درخت کے نیچے آج تک نبی کے علاوہ کسی اورنے پڑاؤ نہیں کیا ، اورمیسرہ یہ بھی دیکھتا رہا کہ جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسورج کی گرمی نے ستایا دوفرشتوں نے سایہ کیا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس تجارتی سفر سے واپس لوٹے اورخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کوپہلے سے بھی کئ گنا زیادہ نفع ہوا توخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے بہت زیادہ تعجب کیا اوران سے شادی کرنے کی رغب کرنے لگیں ۔

لھذا انہوں نے اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہ کوشادی کا پیغام دے کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم میں رضامندی ظاہر کردی ،صحیح روایات کے مطابق اس شادی کے ولی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کے والد خویلد تھے اس کا ذکراصحاب سیر نے بھی کیا ہے ۔

تواس طرح یہ شادی ہوئ اوریہ بھی اوپربیان ہوچکا ہے کہ شادی سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کے کوئ ایسے تعلقات نہیں تھے جوکہ حیاءکے پردہ کوتارتارکرنے والے ہوں ۔

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اورحسن سیرت کوہرچیزسے قبل اللہ تعالی نے محفوظ رکھا اورہراس چيزسے دوررکھا جو رسالت ونبوت کومخدوش کرے اورحیاء اورمروت کے منافی ہو ۔

اوراگریہ کچھ حاصل ہوتا - نبی صلی اللہ وسلم اس سے بہت ہی دورہیں – توکفارقریش کبھی بھی اس پرخاموشی اختیار نہ کرتے اوراس طرح ان کے ہاتھ بہت ہی بڑا عیب لگتا جسے وہ دین اسلام کے رد کا ذریعہ بناتے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت کومخدوش کرتے ، لیکن اس میں سے کچھ بھی نہیں تھا ، بلکہ وہ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے قبل صادق اور امین کا لقب دیتے تھے اورکبھی بھی انہوں نے ان کی عفت وعصمت میں قدغن نہیں لگائ ۔

یہ اور اے بھائ اسی طرح یہ بھی آپ کے علم میں ہونا چاہیۓ کہ سب کے سب انبیاءورسل صلی اللہ علیہ السلام اکمل البشراوران میں سے سب سے افضل ہیں ، اس لیے اللہ تعالی اپنی رسالت کے لیے اھلیت رکھنے والے کوہی اختیار کرتے ہیں اسی کے بارہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

اس موقع کوتو اللہ تعالی ہی خوب جانتا ہے کہ وہ انپی رسالت کہاں رکھے الانعام ( 124 )

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہيں :

یعنی اللہ تعالی ہی خوب علم رکھتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے اور اس کی مخلوق میں سے رسالت کا اھل کون ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے

اور وہ کہنے لگے یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پرکیوں نہیں نازل کیاگيا ، کیا آپ کے رب کی رحمت کویہ تقسیم کرتے ہیں ؟ الزخرف ( 31- 32 ) ۔

یعنی وہ یہ چاہتے تھے کہ جوشخص ان کی آنکھوں میں بڑا عظیم وجلیل ہواس پراس کا نزول ہونا چاہۓ ان دوبستیوں میں یعنی مکہ اورطائف ، اوروہ اللہ تعالی انہیں ذلیل کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم کوحسدوبغض اورعناد واستکبارکی بنا پرحقیر جانتے تھے جیسا کہ اللہ رب العزت نے ان کے بارہ میں خبر دیتے ہوۓ فرمایا ہے :

اوریہ منکرین جب بھی آپ کودیکھتے ہیں توآپ کا مذاق ہی اڑاتے ہیں کہ کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائ سے کرتا ہے اور وہ خود تورحمن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں الانبیاء ( 36 ) ۔

اوراللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

اورواقعی آپ سے پہلے جوپیغبر ہوۓ ہیں ان کے ساتھ بھی استھزاء کیا گيا ہے ، پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کواس عذاب نے آگھیرا جس کا وہ تمسخر اڑاتے تھے الانعام ( 10 ) ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل مرتبہ اورشرف ونسب اوران کےگھراوران کے تربیت یافتہ اوران کی پرورش کی پاکیزگی اورطہارت کے معترف تھے اللہ تعالی اورفرشتےاور مومونوں کی ان پررحمتیں اوردعائيں ہوں ۔

حتی کہ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوقبل ازنبوت اوروحی صادق اورامین کے لقب سے پکارتے تھے ، اس کا اعتراف رئیس الکفار( ابوسفیان جو کہ اس وقت مسلمان نہیں ہوے تھے ) نےبھی رومی بادشاہ ھرقل کے سامنے کیا جب اس نے اس سے سوال کیا کہ اس کا تمہارے اندر نسب کیسا ہے ؟ ابوسفیان کہنے لگا وہ ہم میں حسب ونسب والا ہے

اس نے پھرسوال کیا کیا تم اسے اس کے دعوی نبوت سے قبل جھوٹا کہتے تھے ؟ اس نے جواب نہیں میں دیا ۔

وہ لمبی حدیث جس میں رومی بادشاہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق نبوت اور صفات کی پاکيزگی و طہارت اورجو کجھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ہيں کے صحیح ہونے پراستدلال کیا ہے ۔ ا ھـ

علماء کرام نے اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ سب انبیاء ورسل کبائراور ہراس گناہ سے معصوم ہیں جوفاعل کی عزت میں کمی کا باعث بنتا ہو ۔

ابن العربی کا قول ہے کہ :

یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے کبھی بھی اپنے رب کی نافرمانی نہیں کی نہ توزمانہ جاہلیت میں اورنہ ہی اس کے بعد یہ اللہ تعالی کانبی صلی اللہ علیہ وسلم پرکرم وفضل اورعظمت ہے کہ انبی صلی اللہ علیہ وسلم کوایک بلند وقوی مرتبہ عطا فرمایا ۔۔۔۔ اورہروقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواسباب کریمہ اوروسائل سلیمہ ہرجانب سے گھیرے ہوۓ ہیں ۔ ا ھـ

اور امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

آپ کے علم میں ہونا چاہيۓ کہ علماء کرام انبیاء علیھم السلام سے معصیت کے جواز پراختلاف رکھتے ہیں ، اورقاضی رحمہ اللہ تعالی نے مقاصد مسئلہ کی تلخیص کرتے ہوۓ کہا ہے :

معاصی کے بارہ میں کوئ‏ اختلاف نہيں کہ سب انبیاء ہرقسم کےکبائر سے معصوم ہيں ۔۔۔

اوراسی طرح ہراس صغیرہ گناہ سے سے بھی معصوم ہونے میں کوئ اختلاف نہیں کہ جس کے کرنے سے منزلت ومرتبہ میں کمی اورمر‎ؤت میں گراوٹ پیدا ہوجاۓ ۔

اختلاف تواس کے علاوہ باقی صغائر میں ہے ، توسلف اوربعدمیں آنے والوں میں سےاکثرفقھاء ومحدثين اورمتکلمین اس کے جوازقائل ہیں اس میں ان کے پاس قرآن مجید کی ظاہری آیات اوراحادیث کا ظاہرہے ۔

ہمارے آئمہ میں سے فقہاء کی ایک جماعت کےاہل تحقیق اورنظرکا یہ کہنا ہے کہ جس طرح انبیاء کبائر سے معصوم ہیں وہ اسی طرح صغیرہ گناء سے بھی معصوم ہیں ، نبوت منصب اس طرح کے وقوعات اوراللہ تعالی کی مخالفت سے بہت دور ہے ۔

اس گروہ نے اس مسئلہ میں واردہ آیات واحادیث پرکلام کی اوران کی تاویل کرتے ہیں ، جوکچھ ان کےبارہ میں ذکرکیا گيا ہے وہ یا توایسے مسائل تھے جن میں انہوں نے تاویل کی یا پھرسھوا ہوا اوریا پھر اللہ تعالی کی طرف سے ان پرشفقت کرتے ہوۓ اجازت دی گئ کہ اس میں ان کا مواخذہ نہیں ہوگا اوریا پھر کچھ اشیاء ایسی ہیں جو قبل ازنبوت کی ہیں ، اوریہی قول اورمذھب حق معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی کی کلام کا آخری حصہ یہی ہے ، واللہ تعالی اعلم ۔ ا ھـ

منصب نبوت کی عظمت کی بنا پر علماء کرام کا کہنا ہے کہ جس نے بھی انبیاء پربہتان لگایا وہ کافراورواجب القتل ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

علماء کرام اس پرمتفق ہیں کہ جس نے بھی کسی بھی نبی علیہ السلام پرسب وشتم اور ان کی توھین کی وہ واجب القتل ہے ۔ ا ھـ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 35 / 123 ) ۔

اورپھرزنا کی تہمت توسب سے بڑھی توھین اورسب وشتم ہے ، اسی سلسلےمیں سوال نمبر ( 22809 ) کا بھی مراجعہ کریں ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے مغنی میں ذکرکیا ہے کہ :

بلا شبہ جس نےبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ پرتہمت لگائ اگرچہ وہ توبہ بھی کرلے ، مسلمان ہویا کافر اسے قتل کردیا جاۓ گا ، ہاں یہ بات تو ہے کہ اگروہ توبہ کرتا ہے تواس کی توبہ اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول ہے لیکن اس کی توبہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کی بنا پرقتل ساقط نہیں ہوگا ۔

دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 12 / 405 ) ۔

پھرابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پرقذف وتہمت لگانے والے کا حکم بھی اسی حکم کی طرح ہے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ پرقذف لگانے والے کا تھا اوراسے قتل اس لیے کیا جاۓ گا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرقذف اورتہمت لگائ ہے جوکہ ان کے نسب میں قدح وجرح ہے ۔ ا ھـ

واللہ تعالی اعلم ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں :

زادالمعاد ( 1 / 77 ) السیرۃ النبویۃ تالیف ڈاکٹر اکرم ضياء العمری ( 1 / 112 - 114 ) السیرۃ النبویۃ تالیف مھدی رزق اللہ ( ص 132) افعال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم تالیف ڈاکٹر محمد سلیمان الاشقر ( 1 / 139 - 165 ) احکام القرآن الکریم ( 3 / 576 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب