الحمد للہ.
سوال كے مناسب اللہ سبحانہ و تعالى كا نام لے كر دعا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كہتے ہيں:
" دعاء كرنے والے كے ليے اللہ تعالى كے وہ اسماء حسنى جو اللہ تعالى نے خود ركھے يا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہيں ان ميں سے كوئى بھى نام كا وسيلہ بنا كر دعا كرنا جائز ہے، اور اگر ان ميں سے كوئى ايك نام مطلوب ضرورت كے مناسب اختيار كرے تو بہتر ہے مثلا: يا مغيث اغثنى يعنى اے مددگار ميرى مدد فرما، اور يا رحمن ارحمنى اے رحم كرنے والے مجھ پر رحم كر، رب اغفر لى وارحمنى انك انت التواب الرحيم اے ميرے رب مجھے بخش دے يقينا تو توبہ قبول كرنے والا اور رحم كرنے والا ہے " اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 91 ).
نماز كے بعد دعا مانگنے كے ليے كوئى معين دعا بنانا بدعت ہے اور دين ميں نئى ايجاد ہے، اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 32443 ) اور ( 10491 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
پھر نماز ميں دعا مانگنا افضل ہے اور خاص كر سجدے ميں اور سلام پھيرنے سے قبل تشہد ميں، سلام كرنے كے بعد دعا كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں.
رہا يہ مسئلہ كہ نماز كے بعد درج ذيل آيت:
وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
يا سورۃ البقرۃ كى آيت پڑھنا سنت سے ثابت نہيں اور نہ ہى اس كى كوئى دليل ملتى ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہر رات سورۃ البقرۃ كى آخرى دو آيتيں پڑھنا ثابت ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے رات كو سورۃ البقرۃ كى آخرى دو آيتيں پڑھيں تو اس يہ كافى ہو جائينگى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 807 ).
كافى ہو جائينگى كا معنى يہ كيا گيا ہے كہ اسے قيام الليل سے كافى ہو جائينگى، يا شيطان يا ہر شر سے كفائت كر جائينگى.
شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ان سب سے كفائت كرنے كى مراد ہونے ميں كوئى مانع نہيں... اللہ كا فضل و كرم وسيع ہے " اھـ
اور حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اوپر جو بيان ہوا ہے اس سب كى مراد لينا جائز ہے " اھـ
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب كى مراد كا احتمال ہو سكتا ہے " اھـ
واللہ اعلم .