سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ناجائز لباس فروخت كرنا

سوال

ميں نے بعض لوگوں يہ كہتے ہوئے سنا ہے كہ:
عورتوں كا وہ لباس ساتر نہ ہو - يعنى چھوٹى اور ہاف قميص وغيرہ - فروخت كرنا يا سلائى كرنا جائز ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو سرخ ريشم كا كپڑا ہديہ ديا تھا، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے وہ زيب تن كيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں زيب تن كيے ہوئے ديكھا تو فرمانے لگے:
" ميں نے تو تمہيں اس ليے ديا تھا كہ تم اسے ہديہ كردو " تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے دور جاہليت كے ايك دوست كو ہديہ كرديا تھا، تو كيا اس كى يہ كلام صحيح ہے؟
اور اگر صحيح ہے تو كيا يہ ممكن ہے كہ اس پر قياس كرتے ہوئے سگرٹ اور تمباكو، اور ليڈيز پينٹ شرٹ اور زنانہ و مردانہ بے پردہ لباس كى فروخت جائز ہے ؟
حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو.
ميرى گزارش ہے كہ اس كى وضاحت كريں اللہ تعالى آپ كى حفاظت فرمائے اور اپنى نگہبانى ميں ركھے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ حديث امام بخارى نے ( 2104 ) اور امام مسلم نے ( 2068 ) نے اپنى اپنى صحيح اور دوسرے محدثين نے بھى اپنى كتابوں ميں كئى ايك مقامات پر كئى ايك طرق سے روايت كى ہے، جس ميں سے امام بخارى كى مندرجہ ذيل حديث ( باب ما يكرہ لبسہ للرجال والنساء ) عورتوں اور مردوں كے ليے ناپسنديدہ لباس كے باب ميں سالم بن عبداللہ عن ابيہ كے طريق سے روايت كى گئى ہے:

سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ اپنے باپ ( عبداللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما ) سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس ريشمى يا ريشمى آميزش والا جبہ بھيجا، تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں زيب تن كيے ہوئے ديكھا اور فرمانے لگے:

" يہ ميں تيرے پہننے كے ليے تو نہيں بھيجا تھا، بلكہ يہ تو وہ شخص زيب تن كرتا ہے جس كا آخرت ميں كوئى حصہ نہ ہو، ميں نے تو اس ليے تيرے پاس بھيجا تھا كہ تو اس سے فائدہ حاصل كرے يعنى اسے فروخت كردے"

اور يہ حديث ايسے لباس كى تجارت كے جواز پر دلالت كرتى ہے جس كا استعمال ايك وجہ سے جائز ہو اور كسى اور وجہ سے جائز نہ ہو، اور اس كا ہبہ اور صدقہ كرنا جائز ہو، اور جو كوئى اس لباس كو خريدے يا اسے بطور ہديہ وغيرہ ديا گيا ہو اسے چاہيے كہ وہ اسے مباح طريقہ سے استعمال كرے نہ كہ ممنوعہ طريقہ سے، اس كى مثلا يہ ہے كہ:

سونے كے زيور اور اسلحہ اور چاقو چھرياں اور انگور وغيرہ ان كا استعمال مباح ميں بھى ممكن ہے اور حرام كام ميں بھى استعمال كرنا ممكن ہے، لہذا ان كى تجارت كرنى اور انہيں ہبہ وغيرہ كرنا بھى جائز ہے.

اور جس نے اس كى خريدارى كى يا مثلا اسے ہبہ كيا گيا ہو تو اسے چاہيے كہ وہ اسے مباح اور جائز ہبہ اور فروخت وغيرہ ميں استعمال كرے، نہ كہ اس سے حرام اور ممنوعہ طريقہ پر فائدہ حاصل كرتا پھرے.

ليكن جس چيز كا ہر حالت اور ہر طرح استعمال حرام ہو تو اس كى تجارت كرنا اور اسے ہبہ كرنا جائز نہيں، مثلا خنزير، شير، اور بھيڑيا، جو كچھ ذكر كيا گيا ہے اسے فروخت كرنے كى حديث ميں دليل نہيں ہے، لہذا سگرٹ، اور تمباكو، اور مردانہ و زنانہ بے پردہ لباس كى فروخت كو ان اشياء كى فروخت پر قياس كرنا جو كسى وجہ سے استعمال كرنى جائز ہے اور كسى وجہ سے ناجائز، اور كسى حالت ميں ان كا استعمال كرنا ممنوع ہے تو ايك حالت ميں وہ استعمال كى جاسكتى ہيں، اس ليے كہ سگرٹ اورتمباكو اور بے پردہ لباس كا استعمال ہر حالت ميں حرام ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 179 )