الحمد للہ.
الحمدللہ
یہ حدیث موضوع ہے ، اسے امام حاکم نے عبداللہ بن مسلم الفھری کے طریق سے بیان کرتے ہیں : حدثنا اسماعیل بن مسلمۃ انبا عبدالرحمن بن زيد بن اسلم عن ابیہ عن جدہ عن عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا ۔۔۔ پھر حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے جوکہ سائل نے ذکرکیے ہیں ۔
امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے ۔ اھـ
امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کا علماء کرام کی کثرت نے تعاقب کیا اور اس حدیث کی صحت کا انکار کیا ہے اور اس حدیث پرحکم لگایا ہے کہ یہ حدیث باطل اورموضوع ہے ، اوریہ بیان کیا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی خود بھی اس حديث میں تناقض کا شکار ہیں ۔
علماء کے کچھ اقوال پیش کیے جاتے ہیں :
امام حاکم رحمہ اللہ کی کلام کا امام ذھبی رحمہ اللہ تعاقب کرتے ہوۓ کہتے ہیں : بلکہ یہ حديث موضوع ہے اور عبدالرحمن واہی ہے اور عبداللہ بن مسلم کا مجھے علم ہی نہیں وہ کون ہے ۔ اھـ
اورمیزان الاعتدال میں امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس طرح لکھتے ہیں یہ خبر باطل ہے ۔ اھـ
اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے لسان المیزان میں اسی قول کی تائيد کی ہے ۔
اورامام بیھقی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اس طریق سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے یہ روایت متفرد بیان کی ہے اور عبدالرحمن ضعیف ہے اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اسی قول کو صحیح کہا ہے دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 3 / 323 ) ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے الضعیفۃ میں اسے موضوع قرار دیا ہے دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ ( 25 ) ۔ ا ھـ
اورامام حاکم - اللہ تعالی انہیں معاف فرماۓ – نے خود بھی عبدالرحمن بن زيد کومتھم بوضع الحدیث کہا ہے ، تواب اس کی حدیث صحیح کیسے ہوسکتی ہے ؟ !
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی " القاعدۃ الجلیۃ فی التوسل والوسیلۃ ص ( 69 ) " میں کہتے ہیں :
اورامام حاکم کی روایت انہیں روایات میں سے جس کا ان پرانکار کیا گیا ہے ، کیونکہ انہوں نے خود ہی کتاب " المدخل الی معرفۃ الصحیح من السقیم " میں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع احادیث روایت کی ہیں جوکہ اہل علم میں سے غوروفکر کرنے والوں پرمخفی نہيں اس کا گناہ اس پر ہی ہے ، میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم بالاتفاق ضعیف ہے اوربہت زيادہ غلطیاں کرتا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی رحمہ اللہ ( 1 / 38 - 47 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .