الحمد للہ.
انسان جب تک زندہ ہے اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اور یہ دروازہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک کھلا ہی رہے گا، جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل جو توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔) مسلم: (2703)
اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اسے موت کا غرغرہ شروع نہ ہو جائے۔) ترمذی: (3537) امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "یہ حدیث حسن غریب ہے۔"
اللہ تعالی ہمہ قسم کے گناہوں سے توبہ قبول فرماتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
ترجمہ: کہہ دو: اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ؛ یقیناً اللہ تعالی سارے ہی گناہ بخشنے والا ہے، یقیناً وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الزمر:53]
اسی طرح سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی رات کے وقت اپنے ہاتھ کو پھیلاتا ہے تا کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن کے وقت اپنے ہاتھ کو پھیلاتا ہے تا کہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے۔ یہ معاملہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔) مسلم: (2759)
اس لیے کسی بھی بندے کی توبہ قبول ہونے سے ناامیدی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جیسے کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں بھی موجود ہے کہ:
إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی کی رحمت سے صرف کافر قوم ہی مایوس ہوتی ہے۔[یوسف:87]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ
ترجمہ: فرمایا: اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔[الحجر:56]
چنانچہ مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کی رحمت سے ناامیدی کبیرہ گناہ ہے۔
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین لوگوں کے بارے میں کچھ نہ پوچھو: ایک وہ شخص جو اللہ تعالی سے اس کی چادر چھینتا ہے، اور اللہ تعالی کی چادر کبریائی ہے، جبکہ عزت اس کی نیچے والی چادر ہے، دوسرا وہ شخص جو اللہ تعالی کے کسی معاملے میں شک کرے، اور اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید ہو) مسند احمد: (39 / 368)
اس حدیث کو مسند احمد کے محققین سمیت البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ: (2 / 81) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوسری جانب سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: " اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، اللہ تعالی کی پکڑ سے بے خوف ہو جانا، اللہ تعالی کی رحمت سے ناامیدی اور اللہ تعالی کے فضل سے مایوسی ؛کبیرہ ترین گناہ ہیں۔"
اس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے "المعجم الكبير" (9 / 171) میں اور البانی رحمہ اللہ نے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" (5 / 79) میں صحیح قرار دیا ہے۔
مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں اس شخص کو توبہ کی رغبت دلائیں، اس کی خیر خواہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور اس کے لیے دعا کر کے بہتری کا باعث بنیں۔
جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے: تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔[غافر: 60]
اسی طرح فرمایا:
وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
ترجمہ: اور اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگتے رہو؛ یقیناً اللہ تعالی ہر چیز جاننے والا ہے۔ [النساء: 32]
چنانچہ اگر اللہ تعالی کسی کی بد دعا کی وجہ سے کسی کو بد بخت بنا سکتا ہے تو اسی طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالی کسی کی دعا کی وجہ سے اللہ تعالی اسے نیک بخت بنا دے۔
اس نوجوان کے آس پاس رہنے والے افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ : اس نوجوان کو راہ راست پر لانے کے لیے ہر ممکن نرم لب و لہجہ اپنائیں، ایسے اسباب تلاش کریں جن سے یہ نوجوان نصیحت حاصل کر لے، یہ اسباب اچھی گفتگو، نیک دوست احباب بھی ہو سکتے ہیں جو اس نوجوان کی خیر و بھلائی کے معاملے میں رہنمائی کریں، اسے اللہ کی یاد دلائیں، قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ڈلوائیں، اسی مناسبت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث بھی اس کے سامنے رکھیں تا کہ وہ آیات الہی اور احادیث نبوی سن کر توبہ کی جانب مائل ہو جائے۔
اسی طرح اس کے والدین کو بھی نصیحت کریں، انہیں اس معاملے کی حساسیت کا احساس دلائیں کہ شریعت نے کسی بھی مومن پر لعنت کرنے سے ممانعت کی ہے، اس لیے مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ لعن طعن کرے، بلکہ مومن پر لعنت تو اسے قتل کرنے کے مترادف ہے، جیسے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت بھی ہے۔
مومن شخص چاہے گناہ گاہ بھی ہو پھر بھی اسے پر لعنت کرنا کبیرہ گناہ ہے، چنانچہ جب کسی معین نافرمان مومن پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، تو انسان کے اپنے ہی بیٹے پر لعنت کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟!
واللہ اعلم