ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

کسی ملک میں داخل ہونے کے لیے جھوٹ بولنے کا حکم

سوال

میں نے کسی ملک کے سفارت خانے میں انٹرویو دینا ہے، اور میں اس ملک کا سفر اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک جھوٹ نہ بولوں، لیکن یہ جھوٹ ایسا ہے کہ اس سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہو گا، تاہم مجھے اس کا فائدہ ہو گا، مثلاً: میں یہ کہوں گا کہ: اس ملک کے ایک دوست نے مجھے یہاں آ کر اپنے ملک میں ملنے کی دعوت دی ہے، حالانکہ  حقیقت یہ ہے کہ میرا اس ملک میں کوئی دوست ہے ہی نہیں! میں صرف اس ملک میں جانا چاہتا ہوں، تو کیا اس صورتحال میں میں جھوٹ بول سکتا ہوں؟ اور کیا اگر اس جھوٹ کی وجہ سے مجھے ملازمت مل جاتی ہے تو کیا یہ حرام ہو گا یا کچھ اور؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

چند استثنائی صورتوں کے علاوہ ہر حالت میں جھوٹ بولنا حرام اور قابل مذمت عمل ہے، اور ان چند استثنائی صورتوں میں  آپ کی صورتحال شامل نہیں ہے؛ کیونکہ اس وقت آپ کے جھوٹ بولنے کا تعلق ملکی مفادات سے متعلق ہے، انہوں نے کچھ ایسی شرائط رکھی ہیں جن کی بنا پر دوسروں کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے، لہذا ان شرائط  کو غیر مؤثر بنانے کے لیے جھوٹ اور حیلہ بازی کرنا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ یہ تو ہے اصولی اور بنیادی موقف ، جبکہ کچھ استثنائی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کے لیے خاص فتوی  ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (سچائی نیکی کی جانب رہنمائی کرتی ہے، اور نیکی جنت کی جانب رہنمائی کرتی ہے، یقیناً ایک آدمی اتنا سچ بولتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے۔ اور جھوٹ برائی کی جانب رہنمائی کرتا ہے، اور برائی جہنم کی جانب لے جاتی ہے، یقیناً ایک شخص اتنا جھوٹ بولتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (5629) اور مسلم : (4719)نے  روایت کیا ہے۔

ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مکاری اور دھوکا دہی دونوں ہی جہنم میں لے جانے والی ہیں۔) اس حدیث کو بیہقیؒ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور البانیؒ رحمہ اللہ نے صحیح الجامع : (6725) میں صحیح قرار دیا ہے۔ نیز امام بخاریؒ نے اس حدیث کو صحیح بخاری میں معلق روایت کیا ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (دھوکا دہی جہنم میں لے جانے والی ہے، جو کوئی ایسا کام کرے جس کے بارے میں ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔)

دوم:

اگر کوئی شخص کسی ملک میں داخل ہونے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے ، اور پھر وہاں پر کوئی جائز ذریعہ معاش اپنائے تو اس کے لیے وہاں پر  کام کرنا حرام نہیں ہو گا، الا کہ کوئی ملازمت فراہم کرنے والا اس چیز کی شرط لگائے کہ  میرے پاس کام کرنے والا ملک میں قانونی طریقے سے داخل ہوا ہو، تو ایسی صورت میں اسے دھوکا دینا اور جھوٹ بولنا درست نہیں ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب