الحمد للہ.
اول:
آیت میں مذکور { الْعَشِيِّ وَالإبْكَارِ } کا معنی
یہ آیت کریمہ سیدنا زکریا علیہ السلام کے تذکرے میں اللہ تعالی نے بیان فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا: قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
ترجمہ: زکریا نے کہا: میرے پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی بنا دے، اللہ نے فرمایا: تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم لوگوں سے تین دن تک اشاروں سے ہی بات کرو گے، اور تم اپنے رب کا ڈھیروں ذکر کرو نیز شام اور صبح تسبیح بیان کرو۔[آل عمران: 41]
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
اول: آیت میں مذکور عشی اور ابکار کے معنی میں مفسرین کہتے ہیں: عشی سے مراد دن کا آخری حصہ ہے، یعنی سورج کے ڈھلنے سے لے کر غروب ہونے تک۔ جبکہ ابکار کا معنی ہے صبح کا وقت اور فجر کے ابتدائی حصے سے لے کر چاشت یعنی سورج کے بلند ہونے تک۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابکار سے مراد فجر کا ابتدائی حصہ ہے اور عشی سے مراد سورج ڈھلنے سے لے کر غروب آفتاب تک کا وقت مراد ہے۔
ماخوذ از: "جامع البيان"(5/ 392)
دوم:
آیت میں شام اور صبح تسبیح سے مراد:
یہاں تسبیح سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین نے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں:
1-علامہ واحدی کہتے ہیں: "فرمان باری تعالی: وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لیے نماز پڑھو، یعنی نماز کو قرآن کریم میں تسبیح کہا گیا ہے؛ کیونکہ نماز میں اللہ تعالی کی وحدانیت بیان کی جاتی ہے، اللہ تعالی کی پاکیزگی بیان ہوتی ہے، نیز اللہ تعالی کو نقص سے پاک صفات کے ساتھ متصف کیا جاتا ہے۔" ختم شد
"التفسير البسيط"(5/ 242)
اسی طرح علامہ بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ایک قول یہ بھی ہے کہ تسبیح سے مراد نماز ہے، اور عشی سے مراد سورج کے ڈھلنے سے لے کر غروب آفتاب کا وقت ہے، یہی وجہ ہے کہ نماز ظہر اور عصر کو عشی کی دو نمازیں کہا جاتا ہے، جبکہ ابکار کا وقت فجر سے لے کر چاشت تک ہے۔" ختم شد
"تفسير البغوي"(2/36)
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی کا فرمان: وَسَبِّحْ کا معنی بیان کرتے ہوئے مقاتل کہتے ہیں: نما زپڑھ۔ زجاج کہتے ہیں: عربی زبان میں فَرَغْتُ مِنْ سُبْحَتِيْ آپ اس وقت کہیں گے جب آپ نماز سے فارغ ہو جائیں۔ اور نماز کو تسبیح اس لیے کہا گیا ہے کہ تسبیح میں اللہ تعالی کی تعظیم بیان ہوتی ہے، نیز ہر قسم کے نقص سے اللہ تعالی کو پاک مانا جاتا ہے؛ چنانچہ نماز میں بھی اللہ تعالی کی وہ صفات بیان ہوتی ہیں جن سے اللہ تعالی کی ہر قسم کی عیب سے براءت کا اظہار ہو۔" ختم شد
"زاد المسیر" (1/281)
علامہ رازی رحمہ اللہ نے تسبیح سے مراد نماز کے معنی کو متعدد وجوہات کی بنا پر راجح قرار دیا اور کہا:
"اللہ تعالی کے فرمان: وَسَبِّحْ کے معنی میں دو اقوال ہیں: پہلا قول: نماز پڑھ؛ کیونکہ نماز کو بھی تسبیح سے موسوم کیا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَسُبْحَانَ اللهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ جس وقت تم شام کرو تو اللہ کی پاکی نماز کی صورت میں بیان کرو۔
ویسے بھی نماز میں اللہ تعالی کی تسبیح موجود ہے، اس لیے نماز کو تسبیح کہنا جائز ہے۔
نیز یہاں تسبیح سے نماز مراد لینے کی دو طرح سے دلیل بھی ملتی ہے:
پہلی وجہ: اگر ہم تسبیح سے مراد سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ کہنا مراد لیں تو اس آیت میں اور اس سے پہلے والی آیت وَاذْكُرْ رَبَّكَ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا؛ کیونکہ ایک ہی چیز کا ایک دوسرے پر عطف کرنا جائز نہیں ۔
دوسری وجہ: سابقہ آیت وَاذْكُرْ رَبَّكَ میں زبانی ذکر مراد ہے۔" ختم شد
"تفسير الرازي"(8/ 216)
2-اس سے مراد زبانی ذکر ہے۔
چنانچہ ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اللہ تعالی کے فرمان: وَسَبِّحْ کا معنی ہے کہ: آپ زبان سے سبحان اللہ کہیں، جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ : نماز پڑھ۔
ان دونوں میں سے پہلا قول زیادہ راجح ہے؛ کیونکہ سبحان اللہ کہنا ذکر کے زیادہ قریب ہے، اور لوگوں کے ساتھ بات چیت کی ممانعت کی حالت یعنی نماز میں غیر مناسب ہو گا۔" ختم شد
"المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز"(1/432)
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس حالت میں کثرت کے ساتھ ذکر، شکر اور تسبیح کرنے کا حکم دیا ہے۔" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (2/ 39)
تاہم امام طبری رحمہ اللہ کا طرزِ تفسیر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ دونوں اقوال کو جمع کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ انہوں نے اس کا معنی عبادت کیا اور فرمایا: "فرمانِ باری تعالی: وَسَبِّح بالعَشِيِّ [آل عمران: 41] میں اللہ تعالی کی مراد یہ ہے کہ شام کے وقت اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اس کی عظمت بیان کرو" ختم شد
"تفسیر طبری"(5/391)
امام طبری رحمہ اللہ کا یہ موقف بہت مناسب اور قوی ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں اقوال کو جمع کرنے والا بھی ہے۔
واللہ اعلم