الحمد للہ.
اول:
اصولی طور پر حکم یہی ہے کہ کوئی اپنی زکاۃ، یا فطرانہ یا کفارہ اپنی بیٹی کو نہیں دے سکتا ؛ کیونکہ اگر بیٹی غریب ہو اور باپ کے پاس دولت بھی ہو تو باپ پر لازم ہے کہ اپنی بیٹی کے اخراجات بھی اٹھائے۔
تاہم اہل علم نے اس سے دو صورتیں مستثنی کی ہیں:
پہلی: اپنی بیٹی کو غربت کی وجہ سے نہ دے بلکہ کسی اور مد میں دے، مثلاً: اگر بیٹی مقروض ہو تو اسے قرض چکانے کے لیے دے؛ کیونکہ باپ پر اپنے بچوں کا قرض چکانا واجب نہیں ہے۔
دوسری: باپ اپنی بیٹی کا خرچہ برداشت کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "الاختيارات" (ص 104) میں کہتے ہیں:
"والدین چاہے دادا، دادی جتنے بھی اوپر تک چلے جائیں، اور اسی طرح اولاد چاہے پوتا پوتی نیچے تک چلے جائیں تو ان سب کو زکاۃ دی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ غریب بھی ہوں اور اس شخص کے پاس اتنی دولت نہ ہو کہ ان کے اخراجات بھی برداشت کر سکے، اسی طرح اگر والدین یا اولاد مقروض ہوں، یا مکاتب غلام ہوں یا مسافر ہوں تب بھی انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی اگر ماں غریب ہو اور اس کے چھوٹے بچوں کے پاس دولت ہو، ماں کے اخراجات بچے برداشت نہ کر سکتے ہوں تو بچے کی والدہ کو ان کی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔" مختصراً ختم شد
دوم:
اگر خاوند کے پاس بیوی کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہ ہو، تو کیا لڑکی کے والد پر شادی شدہ بیٹی کا نفقہ واجب ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کے دو اقوال ہیں، چنانچہ مالکی فقہائے کرام اس صورت میں والد پر شادی شدہ بیٹی کا نفقہ واجب کہتے ہیں۔
مالکی فقیہ علامہ خرشی اپنی " مختصر خليل" کی شرح: (4/204) میں کہتے ہیں:
" شادی کسی غریب سے کر دینے سے اس کا نفقہ والد سے ساقط نہیں ہو گا۔
یعنی اگر اولاد اپنی والدہ کی شادی کسی غریب آدمی سے کر دے، یا شادی کے وقت وہ مالدار ہو لیکن پھر غریب ہو جائے تو سوتیلے باپ کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہو گا۔ [یعنی بچوں پر اپنی والدہ کے اخراجات پھر بھی واجب رہیں گے۔] اسی طرح جس عورت کا خرچہ مرد اپنے آپ پر لازم کر لے [یعنی اپنی کفالت میں لے] تو اس عورت کی کسی غریب سے شادی کر دینے پر مرد سے نفقہ ساقط نہیں ہو گا۔
لیکن اگر اس عورت سے شادی مالدار شخص نے کی تو پھر کفالت کرنے والے مرد سے اس عورت کا نفقہ اس وقت تک ساقط ہو گا، جب تک اس سے الٹ حالات پیدا نہیں ہوتے۔
یہاں والدہ کی طرح بیٹی کا حکم بھی یہی ہے۔
اور اگر [والدہ یا بیٹی کا ] خاوند کچھ اخراجات برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہو تو پھر بیٹا یا والد بقیہ اخراجات پورے کرے گا۔" ختم شد
جبکہ شافعی فقہائے کرام اس کے واجب ہونے کے قائل نہیں ہیں۔
شافعی فقیہ علامہ خطیب شربینی "مغني المحتاج" (5/185) میں کہتے ہیں:
"اور اگر [والدہ یا بیٹی ] کی شادی ہو گئی تو پھر عقدِ نکاح ہوتے ہی [بیٹے یا والد سے ]ان کا نفقہ ساقط ہو جائے گا، چاہے ان کا خاوند تنگ دست ہی کیوں نہ ہو، تاآن کہ خاوند عقدِ نکاح فسخ کر دے؛ تا کہ [والدہ یا بیٹی] دو طرف سے اخراجات نہ لے۔" ختم شد
اگر فرض کریں کہ والد پر نفقہ اس وقت واجب ہو گا جب خاوند تنگ دست ہو تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق مرد اپنی زکاۃ اپنی بیٹی کو دے سکتا ہے، بشرطیکہ والد اپنے مال سے بیٹی کے اخراجات پورے کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو، اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اپنے داماد کو زکاۃ دے بیٹی کو نہ دے اور اختلافی موقف سے بچ جائے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا ضرورت مند شادی شدہ بیٹی کو زکاۃ دے سکتے ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جس شخص میں بھی زکاۃ وصول کرنے کا کوئی وصف پایا جاتا ہو تو اصولی طور پر اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
اس بنا پر: اگر کوئی شخص اپنی بیٹی اور نواسا نواسی پر خرچ کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو تو انہیں زکاۃ دے سکتا ہے۔
تاہم افضل اور محتاط عمل یہ ہو گا کہ اپنے داماد کو زکاۃ دے، تا کہ زکاۃ کی ادائیگی سے بلا شک و شبہ بری الذمہ ہو جائے۔" ختم شد
اسی طرح ان سے یہ بھی پوچھا گیا:
کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اپنی شادی شدہ بیٹیوں کو اپنی زکاۃ دوں؟ واضح رہے کہ وہ غریب ہیں۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"علمائے کرام نے واضح کیا ہے کہ: انسان اپنی اولاد اور اپنے آبا و اجداد کو اپنی زکاۃ نہیں دے سکتا ، یعنی کسی انسان کے اصول و فروع اس کی زکاۃ وصول نہیں کر سکتے۔ تاہم یہ اس وقت ہے جب ان کے اخراجات پورے کرنا مقصود ہو، لیکن اگر اصول یا فروع مقروض ہوں اور قرضوں کو نفقہ سے ادا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے؛ کیونکہ انسان پر اپنے اصول و فروع کے قرض چکانا لازم نہیں ہے، اسی لیے قرض چکانے کے لیے انہیں زکاۃ دینے کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ انسان اپنا مال بچا رہا ہے۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ: یہ شخص جس کی شادی شدہ بیٹیاں ہیں اور ان کے خاوند غریب ہیں، پھر اس شخص کے پاس اتنی دولت بھی نہیں ہے کہ اپنی بیٹیوں کے اخراجات برداشت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ انہیں اپنی زکاۃ دے، تاہم زکاۃ کی رقم اپنے دامادوں کے دے؛ کیونکہ انہی کے ذمہ نفقہ کی ذمہ داری ہے۔ بہ ہر حال اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (18/ 426)
واللہ اعلم