الحمد للہ.
یہ سوال فضیلۃ الشیخ محمد ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا گيا توان کا جواب تھا :
"لوگ یہ عمل اللہ تعالی کا تقرب اوربطورعبادت کرتے ہیں ، اورہر وہ عمل جس سے اللہ تعالی کا تقرب اور عبادت کی جائے جس کی کوئى دلیل اوراصل نہ ملتی ہو تووہ عمل بدعت ہے ، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچنے کا کہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( تم نئے نئے امور ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ ہربدعت گمراہی ہے )
ترمذی ( 2676 ) ابوداود ( 4607 )
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہ ثابت ہے کہ آپ نے رکن یمانی اورحجراسود کوہی چھوا اوراس پرہاتھ پھیرا تھا ، تواس بنا جب کوئى انسان رکن یمانی اورحجراسود کے علاوہ کعبہ کے کسی کونے اورجہت کوچھوئےتواسے بدعتی شمار کیا جائے گا ۔
چنانچہ جب عبداللہ بن عباس رضى اللہ تعالی عنہما نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہما کوبیت اللہ کے دونوں شمالی کونے کوچھوتے ہوئے دیکھا توانہيں منع کیا تومعاویہ رضى اللہ تعالی انہیں کہنے لگے : بیت اللہ کی کوئى بھی چيز چھوڑی نہیں جاسکتی ، توابن عباس رضى اللہ تعالی انہیں کہا :
( لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة)
( یقینا تمہارے لیے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے ) الاحزاب ( 21 )
اورمیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودونوں یمنی کونوں کوچھوتے ہوئے دیکھا ، یعنی رکن یمانی اورحجراسود ، تومعاویہ رضى اللہ تعالی عنہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی بات تسلیم کرلی ۔
جو لوگ مقام ابراہیم کوچھوکر تبرک حاصل کرتے ہیں وہ توبالاولی بدعت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تویہ بالکل ہی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراھیم کی کسی جانب کوچھوا ہو ۔
اوراسی طرح جوبعض لوگ زمزم کوچھوتے اورپتھروں کے ستونوں - جوپرانے برامدوں میں عثمانی دور کے بنے ہوئے ستون ہیں - کوچھوتے اورہاتھ لگاتے ہيں یہ سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں لہذا یہ سب کچھ بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے ۔ انتھی .