الحمد للہ.
نفاس والی عورتوں کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ، اورنہ ہی اس کا روزہ صحیح ہے بلکہ اس پر نفاس کی وجہ سے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء ہوگی ۔
نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو ولادت کے سبب سے خارج ہوتا ہے ۔
جب اسقاط حمل کروایا جائے تواسے نفاس شمار نہيں کیا جائے گا لیکن جب ایسا حمل ساقط کروایا جائے جس میں بچہ کی تخلیق مکمل ہوچکی ہو اوروہ واضح شکل اختیارکرچکا ہو ۔
اورتخلیق کا عمل اسی ( 80 ) یوم سے قبل شروع نہيں ہوتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تم میں ہر ایک کی تخلیق اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک جمع ہوتی ہے پھر اتنی ہی مدت میں خون کو لوتھڑا بنتا ہے ، اورپھر اتنی ہی مدت بعد گوشت کا ٹکڑا بنتا ہے ، پھر اللہ تعالی ایک فرشتے کوچار کلمات کے ساتھ بھیجتے ہیں ، اوراسے کہا جاتا ہے کہ اس کے اعمال ، اور اس کا رزق ، اوراس کی عمر ، اوروہ شقی ہوگا یا نیک بخت ، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3208 ) ۔
تواس حدیث سے یہ علم ہوتا ہے کہ حمل میں انسان کئی ایک مراحل سے گزرتا ہے :
چالیس دن تک تو نطفہ رہتا ہے ، پھر چالیس دنوں تک جما ہوا خون کا لوتھڑا ، اورپھر چالیس دن میں گوشت کا ٹکڑا ، اورپھر ایک سوبیس یعنی چار ماہ کے بعد اس میں روج پھونکی جاتی ہے ۔
اورتخلیق مضغۃ یعنی گوشت کے ٹکڑے کے مرحلے میں شروع ہوتی ہے اس سے پہلے نہيں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اے لوگو ! اگر تمہیں مرنے کے دوبارہ اٹھنے میں کوئي شک وشبہ ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے ، پھر گوشت کے ٹکڑے سے جوتخلیق شدہ تھا اورتخلیق شدہ نہیں تھا سے ، ہم تم پر یہ ظاہر کر دیتے ہیں الحج ( 5 ) ۔
تو اللہ تعالی نے مضغۃ کا وصف مخلقۃ اورغیرمخلقۃ ذکر کیا ہے ، کہ مخلقہ سے وہ بچہ مراد ہے جس پیدائش واضح اورشکل وصورت نمایاں ہوجائے ، ایسے بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے ۔
اورغیرمخلقۃ سے وہ بچہ مراد ہے جس کی شکل وصورت واضح نہ ہو اوراس میں روح نہ پھونکی جائے بلکہ قبل ازوقت ہی ساقط ہوجائے ۔
تواس بنا پر ہم یہ کہيں گے :
وہ عورت جس کا اسقاط کروایا گيا ہے اگر تو اسقاط حمل اسی ( 80 ) یوم سے قبل تھا تواس سے آنے والا خون نفاس شمار نہيں ہوگا ، بلکہ وہ استحاضہ کا خون شمار کیا جائے گا جس کی وجہ سے نماز روزہ منع نہيں بلکہ اسے ہرنماز کے لیے وضوء کرکے نماز ادا کرنی ہوگی ۔
اوراگر اسقاط روح پھونکے اورحرکت کے بعد کروایا گيا ہے یعنی چارماہ کے بعد تواس سے آنے والا خون نفاس شمار ہوگا ۔
اوراگر اسقاط اسی ( 80 ) یوم کے بعد اورچارماہ سے قبل کروایا گيا توپھر ساقط ہونے والے بچے کودیکھا جائے گا کہ اگر تو اس کی تخلیق مکمل یعنی سر ہاتھ پاؤں بن چکے تھے توپھر اس سے آنے والا خون نفاس کا خون ہے ، اوراگر تخلیق مکمل نہيں ہوئي تو پھر استحاضہ ہوگا ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب : " الدماء الطبیعیۃ للنساء " میں کچھ اس طرح کہا ہے :
اور نفاس اس وقت ثابت ہوگا جب انسان کی تخلیق واضح ہوچکی ہو ، لھذا اگر چھوٹے کو ہی ساقط کردے جس میں انسان کی تخلیق واضح نہ ہوئي ہو تو یہ نفاس کا خون نہیں ، بلکہ وہ رگ کا خون ہوگا جس کا حکم بھی استحاضہ کا حکم ہے ۔
اورانسان کی تخلیق واضح ہونے کی کم از کم مدت ابتداء حمل سے اسی ( 80 ) یوم ہیں ، اورغالبا نوے ( 90 ) یوم ۔ ا ھـ
دیکھیں کتاب : الدماء الطبیعیۃ للنساء صفحہ ( 40 ) ۔
نفاس والی عورت پاک ہونے تک نمازاور روزہ ترک کرے گی اور جیسے ہی خون سے پاک ہو غسل کر کے نماز ادا کرے گی اورچھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء بھی ۔
اوراگر اسے نفاس کا خون چالیس یوم سے زيادہ آئے اورزيادہ آنے والے خون اگر اس کی ماہواری کی عادت کے موافق ہو تو اس حائضہ شمار کیا جائے گا ، لیکن اگر ماہواری کے موافق نہ ہو تواس زائد خون کو استحاضہ شمار کرتےہوئے غسل کرکے نماز ادا کرے گی اورجو روزے چھوڑے تھے ان کی قضاء بھی کرنا واجب ہے ، اورجوکچھ پاک صاف عورتیں کرتی ہیں وہ بھی وہی کام کرے گي ۔
آپ مزيد تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 37662 ) کے جوابات کا بھی مطالعہ کریں ۔
واللہ اعلم .