الحمد للہ.
ہر مسلمان شخص كو علم ہونا چاہيے كہ اللہ تعالى نے اسراف اور فضول خرچى سے منع فرمايا ہے، اور يہ دونوں چيزيں مال خرچ كرنے ميں حد سے تجاوز ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور كھاؤ پيؤ اور اسراف و فضول خرچى نہ كيا كرو يقينا اللہ تعالى فضول خرچى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا الاعراف ( 31 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اسطرح فرمايا:
اور رشتہ داروں، مسكينوں اور مسافر كو اس كا حق ادا كرتے رہو اور فضول خرچى اور بے جا خرچ سے بچو، بلاشبہ فضول خرچى كرنے والے شيطان كے بھائى ہيں، اور شيطان تو اپنے رب كا بڑا ہى ناشكرا ہے الاسراء ( 26 - 27 )
اور ہر مسلمان شخص كو يہ جان لينا چاہيے كہ اس وقت تك اس كے قدم نہ تو جنت كى طرف اٹھ سكيں گے اور نہ ہى جہنم كى طرف جب تك اللہ تعالى اس سے كچھ اشياء كا سوال نہ كرلے، اور ان اشياء ميں مال بھى شامل ہے اس كے بارہ ميں سوال ہو گا كہ اس نے مال كيسے كمايا اور خرچ كہاں كيا؟
ابو برزہ اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بندے كے قدم اس وقت تك حركت نہيں كرسكيں گے جب تك اس سے چار اشياء كے متعلق سوال نہ كر ليا جائے، اس كى عمر كے متعلق سوال ہو گا كہ اس نے عمر كس ميں بسر كى، اور اس كے علم كے متعلق سوال ہو گا كہ اس نے علم كا كيا كيا، اور اس كے مال كے متعلق سوال ہو گا كہ اس نے مال كيسے كمايا اور خرچ كہاں كيا، اور اس كے جسم كےمتعلق سوال ہو گا كہ اس نے اسے كس چيز ميں بوسيدہ كيا؟ "
اسے امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے سنن ترمذى ( 2417 ) ميں روايت كيا اوراسے حسن صحيح كہا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب والترھيب ( 126 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اس كے بعد يہ معلوم ہو جاتا ہے كہ: موبائل فون اور امتيازى خصوصيات كى حامل گاڑيوں كے نمبر ہزاروں ڈالر اور ريال ميں خريدنا فضول خرچى اور بيجا خرچ كرنے يا پھر حرام كام ميں خرچ كرنا ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى تو ان ميں سے ہر ايك سے اس مال كے متعلق سوال كرنے والا ہے جو اس نے اس طرح كے كاموں ميں خرچ كيا ہے .
اور خاص كر ہم تو ديكھتے ہيں كہ روئے زمين كے اكثر حصوں ميں مسلمان معاشى تنگى كے ساتھ زندگى ميں تنگى اور تكليف ميں بسر كر رہے ہيں، اور ان ميں سے بعض كے پاس تو بھوك مٹانے كے ليے ايك لقمہ تك نہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو تن ڈھانپنے والے لباس سے بھى محروم ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جن كے پاس سر چھپانے كے ليے رہائش نہيں ان كے گھر منہدم كر ديے گئے ہيں اور وہ كھلے آسمان تلے زندگى بسر كرنے پر مجبور ہيں.
اور اس مشكل اور تنگى كے وقت ميں ہم ايسے مسلمان شخص كو بھى ديكھتے ہيں كہ جس نے 1 نمبر والى صرف گاڑى كى نمبر پليٹ حاصل كرنے كے ليے ( 2.18 ) ملين ڈالر صرف كيے، اور يہ سب كچھ اعلانيہ نيلامى ميں ہوا.
اور اسى نيلامى ميں ايسى 2 نمبر والى نمبر پليٹ ( 1.11 ) ملين ڈالر ميں فروخت ہوئى !
اس نيلامى كى انتظاميہ كا كہنا ہے كہ: پہلے دن نيلامى ميں ( 3.9 ) ملين ڈالر حاصل ہوئے !
اور موبائل فون كے نمبروں كا حال بھى اسى طرح ہے، جن ميں سے ايك نمبر ( 360000 ) تين لاكھ ساٹھ ہزار ڈالر كا فروخت ہوا !
اور اس خريدارى كا بخار اور يہ بيمارى كئى ايك ممالك ميں پھيل چكى ہے، چاہيے تو يہ تھا كہ ان ممالك ميں مسلمانوں كى مدد اور بے وقوفى اور فضول خرچى اور اسراف سے مال كى حفاظت عام ہوتى.
اور ديكھا يہ گيا ہے كہ يہ لوگ جو اس طرح كى خريدارى كرتے ہيں انہيں تكبر، رياركارى اور دوسروں كے سامنے فخر جيسے برے امور ايسا كرنے پر ابھارتے ہيں، اور اس معاملے ميں سب سے زيادہ بڑى اور واضح تعليق وہ ہے جو ايك اخبار نے ايك ايسے نوجوان كى جانب سے نشر كى اس نوجوان نے ايك لڑكى كو شادى كا پيغام ديا اور لڑكى كو والد كو كہا كہ: آپ كو ميرے بارہ ميں پوچھنے كو كوئي ضرورت نہيں، صرف ميرى گاڑى كا نمبر ديكھ لو تو مجھے پہچان لو گے.
اور يہ بھى ديكھا گيا ہے كہ امتيازى نمبر كى قيمت تو " رولزرائس"گاڑى كى قيمت سے دوگنى ہو جاتى ہے، امارات ميں اس كى قيمت ڈيڑھ مليون درہم سے بھى زيادہ ہے، اسى طرح اس كى قيمت مرسڈيز گاڑى كى قيمت سے پانچ گنا زيادہ تك جا پہنچتى ہے، يا پھر لكزس گاڑى كى قيمت سے دس گناہ زيادہ كا يہ صرف نمبر ہى بكتا ہے، اور يہ گاڑى سرمايہ داروں كو بہت پسند ہے.
اس كے بعد آپ يہ ديكھيں كہ اس قيمت ميں ضرورت مندوں كے ليے كتنا كھانا پينا اور لباس، بلكہ اس رقم كى كتنى گاڑياں اور ٹيلى فون نمبر خريدے جاسكتے ہيں؟
اور كتنے ہى نوجوانوں كى شادى ہو سكتى ہے كہ وہ عفت عصمت كى زندگى بسر كريں؟
اور كتنے ہى ايسے قيدى ہيں جن كا قرض ادا كركے انہيں قيد سے رہائى دلوائى جاسكتى ہے؟
اور صراط مستقيم سے بھٹكے ہوئے كتنے لوگوں اگر اسى رقم ميں سے دينى كتابيں اور كيسٹيں خريد كر دى جائيں اور تقسيم كيا جائے تو وہ صراط مستقيم پر واپس آسكتے ہيں؟
امتيازى نمبر كا معنى يہ نہيں كہ اس كي بنا پر اسے حاصل كرنے والا بھى امتيازى حيثيت حاصل كرليتا ہے، يا پھر يہ اس كى سادگى ميں امتياز اور بڑے بڑے امور كا اہمتام كرنا والوں ميں شمار ہو جاتا ہے، اور امتيازى نمبر كوئى ترقى نہيں - جيسا كہ گاڑيوں ميں ہوتى ہے- جسے انسان اپنى راحت ، تيز رفتارى اور امن كے ليے استعمال كرے، اور پھر امتيازى نمبر يہ سے كوئى راحت بھى نہيں ہوتى كہ جب اس كى جانب نظر دوڑائى جائے تو خوشى محسوس ہو - جيسے بعض پرندے ديكھنے سے حاصل ہوتى ہے، بلكہ يہ تو صرف تكبر اور بڑائى اور فخر و گھمنڈ اور مال كى فضول خرچى ہے.
اور اگر ٹيلى فون كے امتازى نمبر ميں مثلا كوئي تجارتى كمپنى يا كوئي اہم چيز ہوتى جس كےلوگ محتاج ہوتے يا اس طرح كى كوئى اور چيز ہوتى تو پھر اس كى خريدارى كى كوئى وجہ بھى ہو سكتى تھى اور پھر اس كا ريٹ اتنا زيادہ بھى نہ ہوتا جتنا ريٹ ہم پيچھے ذكر كر چكے ہيں.
اور يہ اميتازى نمبر خريدنے ميں حد بعيد تك اس شہرت كے لباس سے مشابہت پائى جاتى ہے جس سے منع كيا گيا ہے:
فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
" جس نے شہرت والا لباس زيب تن كيا اللہ تعالى اسے روز قيامت اسى طرح كا لباس پہنائے گا"
اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" ذلت والا لباس" كسى راوى نے اس كا اضافہ كيا ہے.
" پھر وہ اسى لباس ميں آگ كے اندر جلے گا" سنن ابوداود حديث نمبر ( 4029 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3607 ).
حافظ ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ اس ليے كہ اس نے تكبر اور فخر كرنا چاہا تھا، تو اللہ تعالى نے اسے اس كے خلاف كى سزا دى، لھذا اسے ذليل كرديا، جس طرح اس نے تكبر كے ساتھ كپڑے لمبے كرنے والے كو زمين ميں دھنسا ديا اور وہ قيامت تك زمين ميں دھنستا ہى رہے گا.
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 145 - 146 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
شہرت والا لباس مكروہ ہے، اور يہ وہ اونچا لباس ہے جو عادت كے مطابق نہ ہو اور وہ نيچا لباس جو عادت سے خارج ہو؛ كيونكہ سلف صالحين دونوں شہرتوں كو ناپسند كرتے تھے: اونچا اور نيچا، اور حديث ميں ہے كہ:
" جس نے شہرت والا لباس پہنا اسے اللہ تعالى روز قيامت ذلت والا لباس پہنائے گا"
اور سب سے بہتر اور اچھے امور درميانے اور اوسط درجہ كے ہيں. ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 138 ).
اور خلاصہ يہ ہے كہ:
ان امتيازى نمبروں كى خريدو فروخت جائز نہيں، اور اگر بعض لوگوں كے ليے جائز بھى ہو تو ان كے ليے يہ جائز نہيں كہ وہ اس ميں لمبى چوڑى رقم خرچ كريں.
اور جسے اللہ تعالى نے يہ مال دے ركھا ہے اسے چاہيے كہ وہ اس نعمت پر اللہ تعالى كا شكر ادا كرے اور اس كى حفاظت كرے، اور اسے ايسى جگہ ميں صرف اور خرچ نہ كرتا پھرے جو اللہ تعالى كى ناراضگى اور غضب كا باعث بنے، يا ايسى جگہ خرچ كرے جہاں كوئى فائدہ ہى نہ ہو، اس كے علم ميں ہونا چاہيے كہ اس مال كے متعلق روز قيامت اس سے باز پرس ہو گى كہ: " اس نے يہ مال كہاں سے كمايا اور كہاں خرچ كيا"
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .