الحمد للہ.
اول:
جى ہاں يہ ثابت ہے كہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے اور فرمانے لگے:
" ان دونوں قبر والوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور يہ عذاب انہيں كسى بڑى چيز كى بنا پر نہيں.
پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيوں نہيں، ان ميں سے ايك تو غيبت اور چغلى كرتا تھا، اور دوسرا پيشاب كى چھينٹوں سے نہيں بچتا تھا "
راوى بيان كرتے ہيں كہ: پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك تازہ شاخ لى اور اسے دو حصے كر كے ہر ايك قبر پر گاڑھ ديا، اور پھر فرمايا:
" اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہيں ہونگى ان سے تخفيف اور كمى كى جائيگى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1378 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 292 ).
اور يہ اس كى دليل ہے كہ ہو سكتا ہے اس عذاب ميں كمى اور تخفيف ہو جائے، ليكن اس تازہ شاخ كى عذاب كى تخفيف سے كيا مناسبت ہے ؟
اس كے جواب ميں كئى ايك قول ہيں:
1 - اس ليے كہ يہ دونوں تازہ شاخيں خشك ہونے تك اللہ تعالى كى تسبيح بيان كرتى ہيں، اور تسبيح و تحميد ميت سے عذاب ميں كمى كا باعث ہے، ہوسكتا ہے اس مستنبط علت سے يہ نكالا گيا ہے ـ اور يہ بعيد ہے ـ كہ انسان كے ليے قبرستان جا كر قبروں كے پاس حمد و ثنا بيان كرنا مسنون ہے تا كہ ميت كے عذاب ميں تخفيف ہو.
2 - اور بعض علماء كا كہنا ہے: يہ تعليل ضعيف اور كمزور ہے، كيونكہ شاخ تو ہر حالت ميں تسبيح بيان كرتى ہيں چاہے وہ تازہ ہو يا خشك، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ساتوں آسمان اور اور زمين اور ان ميں جو كچھ ہيں سب اس اللہ كى تسبيح بيان كرتى ہے، اور ہر چيز اللہ سبحانہ و تعالى كى تسبيح بيان كرتى ہے ليكن تم ان كى تسبيح كو سمجھ نہيں سكتے الاسراء ( 44 ).
اور يہ تو ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے پتھر اور كنكرياں بھى تسبيح بيان كرتے تھے حالانكہ يہ خشك ہيں، تو پھر علت كيا ہوئى ؟
علت يہ ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ تعالى سے اميد ركھى كہ جب تك يہ شاخيں خشك نہ ہونگى ان كے عذاب ميں كمى ہو گى، يعنى يہ مدت كوئى زيادہ اور لمبى نہيں يہ اس ليے كہ ان كے فعل كے اجتناب كرنے اور ڈرانے كے ليے كيونكہ ان كا فعل بڑا تھا جيسا كہ روايت ميں آيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيونكہ نہيں يہ بڑا ہے "
ايك شخص تو پيشاب سے نہيں بچتا تھا، اور جب پيشاب سے اجتناب نہ كيا تو اس نے نماز بغير وضوء اور طہارت كيے ادا كى.
اور دوسرا چغلى اور غيبت كيا كرتا تھا، اللہ تعالى اس سے بچا كر ركھے، اور لوگوں كے درميان عداوت و دشمنى اور بغض پيدا كرتا، تو يہ معاملہ بھى بڑا ہے.
اس حديث كے معنى اور شرح ميں يہى زيادہ اقرب ہے كہ يہ وقتى شفاعت تھى تا كہ اپنى امت كو اس سے بچنے كا كہا جائے، نہ كہ مستقل اور ہميشہ كى شفاعت سے بخل.
دوم:
بعض علماء كرام ـ اللہ انہيں معاف كرے ـ كا كہنا ہے:
انسان كے ليے قبر پر تازہ شاخ يا چھڑى ركھنى مسنون ہے تا كہ اس كے عذاب ميں تخفيف ہو، ليكن يہ استنباط بہت بعيد ہے، اور ہميں درج ذيل امور كى بنا پر ايسا كرنا جائز نہيں:
اول:
ہمارے ليے تو يہ منكشف نہيں ہوا كہ اس شخص كو عذاب ہو رہا ہے، بخلاف رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے بذريعہ وحى ان دونوں قبروں كى حالت كو منكشف كر ديا تھا.
دوم:
جب ہم ايسا كرتے ہيں تو ہم نے ميت كے ساتھ اچھا سلوك نہيں كيا، كيونكہ ہم نے اس كے بارہ ميں غلط گمان اور ظن سوء ركھا كہ اسے عذاب ہو رہا ہے، حالانكہ ہميں كيا علم كہ اسے عذاب كى بجائے نعمتيں دى جا رہى ہوں، ہو سكتا ہے يہ ميت ان ميں سے ہو جن پر اللہ تعالى نے مغفرت كے بہت سارے اسباب ميں سے كسى سبب كے باعث موت سے قبل ہى مغفرت و بخشش كا انعام كر ديا ہو، اور جب اسے موت آئى تو رب العباد نے اسے معاف كر ديا ہو، تو اس طرح وہ عذاب كا مستحق ہى نہيں رہتا.
سوم:
يہ استنباط سلف صالح رحمہم اللہ كے طريقہ كے خلاف ہے، چنانچہ يہ عمل سلف رحمہم اللہ كے طريقہ اور سنن ميں شامل نہيں تھا، حالانكہ وہ لوگ تو سب لوگوں سے زيادہ شريعت كا علم ركھنے والے تھے.
چہارم:
اللہ سبحانہ و تعالى نے ہمارے ليے اس سے بھى بہتر چيز بيان كى ہے وہ يہ كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميت دفن كرنے سے فارغ ہوتے اور قبر كے پاس كھڑے ہو كر فرماتے:
" اپنے بھائى كے ليے بخشش و ومغفرت طلب كرو، اور اس كى ثابت قدمى كى دعا كرو، كيونكہ اس وقت اس سے سوال كيا جا رہا ہے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى الشيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ ( 2 / 30 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
واللہ اعلم .