الحمد للہ.
علماء رحمہم اللہ نے وجوب حج كى كچھ شروط بيان كي ہيں جن كے پائے جانے سے حج فرض ہو جاتا ہے، ان شروط كے بغير حج فرض نہيں ہوتا، وہ شروط پانچ ہيں:
اسلام ـ عقل ـ بلوغت ـ آزادى ـ استطاعت ـ
1 - اسلام:
سب عبادات ميں يہ شرط ہے، اس ليے كہ كافر كى عبادت ہى صحيح نہيں كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
ان كے خرچ كو قبول نہ ہونے كا سبب اس كے علاوہ اور كوئى نہيں كہ انہوں نے اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ كفر كيا التوبۃ ( 54 ).
اور معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں يمن روانہ كيا تو انہيں فرمايا:
" تم اہل كتاب كى قوم كے پاس جا رہے ہو انہيں اس گواہى كى دعوت دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور ميں اللہ تعالى كا رسول ہوں، اگر تو وہ اس ميں تيرى اطاعت كرليں تو انہيں بتانا كہ اللہ تعالى نے ان پر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كي ہيں، اگر وہ اس ميں بھى تيرى اطاعت كرليں تو انہيں بتانا كہ اللہ تعالى نے ان كے مالداروں پر زكاۃ فرض كى ہے جو ان سے ليكر ان كے فقراء ميں لوٹا دى جائيگى "
متفق عليہ.
اس ليے كافر كو پہلے تو اسلام ميں داخل ہونے كى دعوت دى جائيگى اور جب وہ اسلام قبول كر لے تو پھر ہم اسے نماز، زكاۃ ا ور روزہ اور حج اور باقى سب عبادات اور اسلام احكام كا حكم دينگے.
2 - 3 - عقل اور بلوغت:
اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:
" تين اشخاص مرفوع القلم ہيں، سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور مجنون سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4403 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے بچے پر حج واجب نہيں، ليكن اگر اس كا ولى اسے حج كرواتا ہے تو اس كا حج صحيح ہے، اور بچے كو حج كا اجروثواب حاصل ہو گا، اور اس كے ولى كو بھى اجر ملے گا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے جب ايك عورت نے بچہ اٹھا كر دريافت كيا كہ:
كيا اس كے ليے حج ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:
" جى ہاں، اور اور تجھے اجروثواب ملے گا "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے.
4 - آزادى:
غلام پر حج واجب نہيں، كيونكہ وہ اپنے مالك كے حق ميں مشغول ہے.
5 - استطاعت اور قدرت:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے حج فرض ہے، جو كوئى اس كى راہ كى استطاعت ركھے آل عمران ( 97 ).
يہ مالى اور بدنى دونوں استطاعت كو شامل ہے.
بدنى استطاعت كا معنى يہ ہے كہ: وہ بدنى طور پر صحيح ہو، اور بيت اللہ تك سفر كرنے كى مشقت كا متحمل ہو.
اور مالى استطاعت كا معنى يہ ہے كہ: وہ بيت اللہ تك جانے اور واپس آنے كے خرچ كا مالك ہو.
مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے كہ:
حج كى مناسبت سے استطاعت يہ ہے كہ بدنى طور پر صحيح ہو، اور بيت اللہ تك پہنچنے كے خرچ كا متحمل ہو چاہے ہوائى جہاز كے ذريعہ يا پھر گاڑى يا جانور يا اس كى اجرت كا مالك ہو، اور اس كے ساتھ آنے جانے زاد راہ كا بھى مالك ہو جو آنے جانے تك كے ليے كافى ہو، اور اس كے علاوہ حج سے واپس آنے تك كا گھريلو خرچ بھى ركھتا ہو، اور عورت كے ساتھ اس كا خاوند يا پھر اس كا محرم حج يا عمرہ كے سفر ميں اس كے ساتھ ہو. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 30 ).
اور اس ميں يہ بھى شرط ہے كہ بيت اللہ تك جانے كا خرچ اس كى اصل ضروريات اور شرعى نفقہ اور اس كے قرض كى ادائيگى سے زيادہ ہو.
قرض سے مراد اللہ تعالى كے حقوق مثلا كفارے اور انسانوں كے حقوق مراد ہيں.
جس شخص پر قرض ہو، اور اس كا مال حج اور قرض كى ادائيگى دونوں كے ليے كافى نہ ہو تو اسے پہلے قرض ادا كرنا چاہيے، اور اس پر حج فرض نہيں ہوتا.
بعض لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ اس ميں علت قرض خواہ كى عدم اجازت ہے، اس ليے جب وہ اجازت دے دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اس خيال اور گمان كى كوئى اصل اور حقيقت نہيں، بلكہ علت تو ذمہ دارى ہے، اور يہ معلوم ہے كہ اگر قرض خواہ مقروض كو اجازت دے بھى دے تو مقروض كے ذمہ قرض باقى ہے، اور وہ اس اجازت ملنے پر قرض سے برى الذمہ نہيں ہو گا، اسى ليے مقروض كو كہا جائيگا كہ:
تم پہلے قرض ادا كرو اور پھر اگر تمہارے پاس حج كرنے كے ليے مال بچ جائے تو حج كرو، وگرنہ آپ پر حج واجب نہيں ہوتا.
اور اگر مقروض شخص جس نے قرض كى ادائيگى نے حج نہ كرنے ديا ہو بغير حج كيے فوت ہو جائے تو وہ اسلام ميں بغير كسى كمى و كوتاہى كے اللہ سے ملے گا، كيونكہ اس پر حج واجب نہيں ہوا، جس طرح فقير پر زكاۃ واجب نہيں ہوتى اسى طرح حج بھى نہيں.
ليكن اگر اس نے قرض پرحج كو مقدم كر ليا اور قرض ادا كرنے سے قبل فوت ہو گيا تو پھر وہ خطرہ ميں ہے، كيونكہ شھيد كو قرض كے علاوہ باقى سب كچھ بخش ديا جاتا ہے، تو پھر اس كے علاوہ كسى اور كو كيسے ؟!
شرعى خرچ اور نفقہ سے مراد يہ ہے كہ:
وہ نفقہ اور اخراجات جو شريعت نے مقرر كيے ہيں، مثلا اپنا اور اپنے اہل و عيال كا خرچ، جس ميں كوئى اسراف اور فضول خرچى و زيادتى نہ ہو، اگر وہ متوسط الحال يعنى درميانى حالت والا ہے اور اپنے آپ كو مالدار ظاہر كرنا چاہتے ہے اور اس كے ليے قيمتى گاڑى خريد لے تا كہ وہ غنى اور مالداروں كے ساتھ مل كر مقابلہ كرے، اور اس كے پاس حج كے ليے مال نہيں تو اس كے ليے گاڑى فروخت كرنى واجب ہے، تا كہ اس كى قيمت سے حج كر سكے، اور وہ اپنى حالت كے مطابق گاڑى خريدے.
كيونكہ اس قيمتى گاڑى كى خريدارى ميں رقم خرچ كرنى شرعى اخراجات ميں شامل نہيں ہوتا، بلكہ يہ اسراف اور فضول خرچى ميں شامل ہوتا ہے جس سے شريعت مطہرہ نے منع كيا ہے.
اور نفقہ اور اخراجات ميں معتبر يہ ہے كہ اس كے پاس اتنا خرچ ہو جو اسے اور اس كے اہل وعيال كے ليے واپسى تك كافى ہو.
اور اس كے پاس اتنا ہو جو اس كے واپسى كے بعد اس كے ليے اور جن كے اخراجات اس كے ذمہ ہيں ان كے ليے كافى ہو، مثلا جائدار كا كرايہ، يا تنخواہ يا تجارت وغيرہ.
اس ليے اگر تجارت كے راس المال يعنى اصل مال ميں كمى كرنے كى بنا پر نفع ميں كمى ہو اور وہ اس اور اس كے اہل و عيال كے ليے كافى نہ رہے تو اس پر اس تجارت كے راس المال اور اصل مال كے ساتھ حج كرنا لازم نہيں آتا جس كے نفع سے وہ اپنے اور اہل و عيال كے اخراجات پورے كر رہا ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص كا اسلامى بنك ميں مال ركھا ہے، اور اس مال كے منافع كے ساتھ اس كى تنخواہ معتدل صورت ميں اس كے ليے كافى ہے، تو كيا راس المال كے ساتھ اس پر حج كرنا فرض ہے، يہ علم ميں رہے كہ ايسا كرنے سے اس كى ماہانہ آمدن پر اثر پڑے گا اور وہ مادى طور پر كمزور ہو جائيگا ؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
" اگر آپ كى حالت ايسى ہے جس طرح آپ نے بيان كى ہے، تو آپ عدم استطاعت كى بنا پر حج كرنے كے مكلف نہيں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے، جو كوئى اس كى راہ كى طرف استطاعت ركھے.
اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور اس نے تم پر دين ميں كوئى تنگى نہيں ركھى. انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 36 ).
حاجات اصليہ يا اصلى ضروريات سے مراد وہ اشياء ہيں جن كا انسان اپنى زندگى ميں بہت زيادہ محتاج رہتا ہے، اور اس سے مستغنى ہونا مشكل ہو.
مثلا: طالب علم كے ليے كتابيں، ہم اسے يہ نہيں كہينگے كہ تم اپنى كتابوں فروخت كر كے حج كرو، كيونكہ يہ اس كى اصلى ضروريات ميں شامل ہوتى ہيں.
اور اسى طرح ضرورت كى گاڑى، ہم يہ نہيں كہتے كہ تم گاڑى فروخت كر كے اس كى قيمت سے حج كى ادائيگى كرو، ليكن اگر اس كے پاس ايك كى بجائے دو گاڑياں ہوں اور اسے صرف ايك گاڑى كى ضرورت ہو تو اس كے ليے ايك گاڑى فروخت كرنا واجب ہے تا كہ اس كى قيمت سے حج ادا كرے.
اور اسى طرح كاريگر كے ليے لازم نہيں كہ وہ اپنے آلات فروخت كرے كيونكہ اسے ان كى ضرورت رہتى ہے.
اور اسى طرح وہ گاڑى جسے چلا كر وہ اپنا اور اپنے بيوى بچوں كے اخراجات پورے كرتا ہے، حج كے ليے اسے فروخت كرنا واجب نہيں.
اور اصلى ضروريات ميں نكاح كى ضرورت شامل ہے.
اس ليے اگر اسے نكاح اور شادى كى ضرورت ہو تو شادى كو حج پر مقدم كيا جائيگا، وگرنہ حج مقدم ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 27120 ) كا جواب ديكھيں.
لہذا مالى استطاعت سے مراد يہ ہوئى كہ قرض اور شرعى اخراجات اور اصلى ضروريات پورى كرنے كے بعد جو مال بچے اور وہ حج كے ليے كافى ہو.
چنانچہ جو شخص بدنى اور مالى استطاعت ركھتا ہو اس كو حج كى ادائيگى جلد كرنا ہو گى.
اور جو شخص مالى اور بدنى استطاعت نہيں ركھتا، يا پھر اس ميں بدنى استطاعت تو ہے ليكن وہ فقير ہے اس كے پاس مال نہيں تو اس پر حج واجب نہيں ہوتا.
اور جو شخص مالى استطاعت ركھتا ہو ليكن اس ميں بدنى استطاعت نہيں تو پھر ہم ديكھيں گے كہ:
اگر تو اس كى معذورى ختم ہونے كى اميد ہے مثلا مريض كو مرض سے شفايابى كى اميد ہو تو پھر انتظار كيا جائيگا حتى كہ اللہ تعالى اسے شفايابى سے نواز دے اور پھر وہ حج كرے گا.
اور اگر اس كى معذورى ختم ہونے كى اميد نہيں، مثلا سرطان كا مريض يا پھر زيادہ عمر كا بوڑھا شخص جو حج نہيں كر سكتا تو اس شخص پر واجب ہے كہ وہ اپنى طرف سے كسى شخص كو مقرر كر دے جو اس كى جانب سے حج كرے، اور اس شخص ميں مالى استطاعت ہونے كى صورت ميں بدنى استطاعت نہ ہونا حج كو ساقط نہيں كرے گى.
اس كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
ايك عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اللہ تعالى كا اپنے بندوں پر فرض كردہ حج ميرے بوڑھے والد پر بھى فرض ہو چكا ہے، ليكن وہ سوارى پر بيٹھ نہيں سكتا، تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كر سكتى ہوں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1513 ).
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كے اس قول " حج اس كے والد پر فرض ہو چكا ہے " كو صحيح قرار ديا حالانكہ وہ بدنى استطاعت نہيں ركھتا تھا.
اور عورت كے ليے حج كى فرضيت ميں محرم كى شرط ہے كہ اس كا محرم ہو، اور عورت كے ليے بغير محرم حج كا سفر كرنا حلال نہيں چاہے حج نفلى ہو يا فرضى, كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورت محرم كے بغير سفر نہ كرے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1862 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1341)
عورت كا محرم اس كا خاوند ہے يا پھر وہ شخص جو نسب يا رضاعت يا سسرالى طور پر ابدى حرام ہو.
اور بہنوئى يا خالو، يا پھوپھا محرم نہيں بن سكتا، بلكہ بعض عورتيں سستى اور كاہلى سے كام ليتے ہوئے اپنى بہن اور بہنوئى كے ساتھ يا پھر خالہ اور خالو كے ساتھ سفر كرتى ہيں، ايسا كرنا حرام ہے.
كيونكہ اس كا بہنوئى يا خالو اس كا محرم نہيں ہے، اس ليے اس كے ساتھ سفر كرنا حلال نہيں.
خدشہ ہے كہ اس كا حج مبرور نہيں ہو گا، كيونكہ حج مبرور وہ ہوتا ہے جس ميں كوئى گناہ نہ ہو، اور اس عورت نے تو حج سے واپس آنے تك سارا سفر ہى گناہ والا كيا ہے.
اور محرم كے ليے شرط ہے كہ وہ عاقل اور بالغ ہو.
كيونكہ محرم كا مقصد عورت كى حفاظت اور اس كا خيال ركھنا ہے، بچہ اور مجنون اس مقصد كو پورا نہيں كر سكتے.
لہذا اگر عورت محرم نہيں پاتى يا پھر اسے محرم تو ملا ليكن وہ اس كے ساتھ سفر نہيں كرتا تو اس صورت ميں عورت پر حج واجب نہيں ہو گا.
اور عورت پر حج فرض ہونے كے ليے خاوند كى اجازت شرط نہيں، بلكہ اگر عورت كے پاس حج واجب ہونے كى شروط مكمل ہو جائيں تو اس پر حج كرنا فرض ہو جاتا ہے، چاہے خاوند اجازت نہ بھى دے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" جب استطاعت كى شروط مكمل ہو جائيں تو حج كرنا فرض ہو جاتا ہے، اور اس ميں خاوند كى اجازت شامل نہيں، اور نہ ہى خاوند كے ليے بيوى كو حج كرنے سے منع كرنا جائز ہے، بلكہ اس كے ليے مشروع ہے كہ وہ اس واجب كى ادائيگى ميں اس كے ساتھ تعاون كرے" اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 20 ).
يہ تو فرضى حج ميں ہے، ليكن نفلى حج كے متعلق ابن منذر رحمہ اللہ تعالى نے اجماع نقل كيا ہے كہ: خاوند بيوى كو نفلى حج كرنے سے روكنے كا حق ركھتا ہے، كيونكہ خاوند كا حق اس پر واجب ہے، اس ليے كسى غير واجب چيز كے ساتھ خاوند كا حق نہيں روكا جا سكتا.
ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ ( 5 / 35 ).
ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 5 - 28 ).
واللہ اعلم .