سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كناروں ميں لوہے كے چھلے لگى ہوئى دف بجانا اور سننا

45862

تاریخ اشاعت : 02-01-2008

مشاہدات : 5808

سوال

كيا شادى بياہ كے موقع پر عورتوں كے ليے كناروں ميں لوہے كے چھلے لگى ہوئى دف بجانا اورسننا جائز ہے ؟
اور كيا خوشى اور شادى بياہ كے موقع كے علاوہ بھى عورتوں كے ليے دف بجانا اور سننا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال نمبر ( 20406 ) اور ( 9290 ) كے جواب ميں دف كا حكم بيان كيا جا چكا ہے كہ يہ صرف عورتوں كے ليے بجانا اور سننا جائز ہے، ليكن مردوں كے ليے نہيں، اور وہ دف بجانى اور سننى جائز ہے جو ايك طرف سے كھلى ہو، ليكن اگر وہ دونوں طرف سے بند ہے، يا پھر ايك طرف سے مكمل بند اور دوسرى طرف سے تھوڑا سا سوراخ اور باقى حصہ بند ہے تو يہ طبل اور ڈھول كے ساتھ ملتى ہے، يہ جائز نہيں.

اور وہ دف بجانى اور سننى جائز ہو گى جو لوہے كى چھلوں وغيرہ سے خالى ہے، ( يعنى دف ميں لوہے كى پترياں اور چھلے نہ لگائے گئے ہوں ) كيونكہ ان سے جھنكار پيدا ہوتى ہے.

السفارينى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور اگر دف جھانجر والى ہو اور آپ اسے توڑ ديں تو آپ اس كے ضامن نہيں ہونگے، اور كڑے اور چھلے بھى جھانجر كى طرح ہى ہيں، امام احمد نے بھى ضمان نہ ہونا ہى بيان كيا ہے.

ليكن ان اشياء سے خالى دف يہ نكاح اور شادى بياہ كے مواقع كے علاوہ بھى عورتوں كے ليے مباح ہے "

ديكھيں: غذاء الالباب شرح منظومۃ الآداب ( 1 / 243 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ڈھول كى ايك قسم ايسى بھى ہے جس كى دوسرى جانب زيادہ بند ہوتى ہے صرف اس ميں چھوٹا سا سوراخ ہوتا ہے، تو كيا اسے دف كے ساتھ ملحق كيا جا سكتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اسے ڈھول كے ساتھ ہى ملحق كيا جائيگا، بلكہ يہ اس سے بھى سخت اور شديد حكم ميں آتا ہے؛ كيونكہ ڈھول كى يہ قسم ايسى آواز پيدا كرتى ہے جو اس چھوٹے سے سوراخ سے نكل كر سيٹى كى آواز بن جاتى ہے، اور اگر ايك طرف كھلى ہوتى يا سوراخ بڑا ہوتا تو يا بالكل بند ہوتا تو يہ آواز پيدا نہ ہو سكتى تھى.

اس ليے يہ دف كى جگہ اور دف والے مواقع پر استعمال كرنا جائز نہيں اس ليے كہ بلا شك و شبہ دف اس سے بہت ہى كم اور آسان ہے، اور يہ ڈھول دف سے زيادہ ساز پيدا كرتا ہے، اور جھوم اور جھنكار زيادہ پيدا كرتا ہے.

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح سوال نمبر ( 1141 ).

گانے بجانے اور موسيقى كے آلات ميں اصل حرمت ہى ہے، صرف اس سے معين اور مخصوص مواقع پر دف كو مباح كرتے ہوئے مستثنى كيا گيا اور دف بھى وہ مستثنى اور جائز ہے جو جھانجر اور كڑے اور چھلے وغيرہ سے خالى ہو يہ اشياء اس ميں نہ لگائى گئى ہوں.

گانے بجانے اور موسيقى كے آلات كا حكم سوال نمبر ( 5000 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

دوم:

دف بجانے كے متعلق جو احاديث وارد ہيں ان ميں صرف تين مواقع پر دف بجانا ثابت ہے:

پہلا: عيد كے موقع پر.

دوسرا: شادى بياہ كے موقع پر.

تيسرا: مسافر كے واپس آنے كے موقع پر يا جو اس كے معنى ميں ہو.

اس كے دلائل آپ سوال نمبر ( 20406 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب