الحمد للہ.
پہلے سوال نمبر: (45325) میں ہم عذاب قبر کے اسباب ذکر کر آئے ہیں، اور یہاں قرآن کریم اور صحیح احادیث کے دلائل کے ساتھ ان گناہوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
- شرک اور کفر کا ارتکاب کرنا۔
اللہ تعالی کا آل فرعون کے بارے میں فرمان ہے کہ: النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوّاً وَعَشِيّاً وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
ترجمہ: ان پر آگ صبح اور شام پیش کی جاتی ہے اور جس دن قیامت قائم ہو گی کہا جائے گا: آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔ [غافر: 46]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ
ترجمہ: کاش آپ ان ظالموں کو دیکھیں جب وہ موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے ان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے ہوتے ہیں (اور کہتے ہیں) :’’لاؤ، اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم ناحق باتیں اللہ کے ذمہ لگاتے تھے اور اس کی آیتوں (کو ماننے کے بجائے ان) سے تکبر کرتے تھے‘‘ [الانعام: 93]
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت کافر قریب المرگ ہوتا ہے تو فرشتے اسے عذاب، سزا، بیڑیوں ، زنجیروں ، جہنم اور غضب الہی کی خوش خبری دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی روح پورے جسم میں بکھر جاتی ہے، اور جسم سے نکلنے سے انکار کر دیتی ہے تو پھر فرشتے اسے اتنا مارتے ہیں کہ نکلے بنا اسے کوئی چارہ نہیں سوجھتا، اور فرشتے مارتے ہوئے انہیں کہتے ہیں: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ تم اپنی جانیں نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا ۔[الانعام: 93]
- اس بات کی دلیل کہ شرک کی وجہ سے عذاب قبر ہو گا۔
شرک عذاب قبر کا سبب بنتا ہے اس کی دلیل سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "ایک بار نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم بنو نجار کے ایک باغ میں خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ کے ہمراہ تھے، کہ اچانک خچر بدک پڑا تو وہاں پر چھ، یا پانچ، یا چار قبریں تھیں،
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: (ان قبروں میں مدفون لوگوں کو کون جانتا ہے؟)
تو ایک شخص نے کہا: میں جانتا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: (یہ کب فوت ہوئے ہیں؟)
اس نے کہا: یہ شرک کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔۔
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اس امت کو قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، اگر اس چیز کا خدشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفناؤ گے نہیں؛ تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ تمہیں بھی عذاب قبر سنائے جو میں سنتا ہوں۔۔۔پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اللہ تعالی سے آگ کے عذاب سے پناہ حاصل کرو۔) الحدیث، اسے مسلم نے روایت کیا ہے: (2867)
تو اس حدیث مبارکہ میں واضح ہے کہ: "یہ شرک کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔" جس سے ثابت ہوا کہ شرک عذاب قبر کا باعث بنتا ہے۔
- نفاق
منافقوں کو عذاب قبر بالاولی ہو گا؛ انہیں عذاب قبر کیوں نہ ہو!؟ یہ تو جہنم کے بھی انتہائی نچلے گڑھے میں جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ
ترجمہ: اور تمہارے ارد گرد بسنے والے دیہاتیوں میں کچھ منافق موجود ہیں اور کچھ خود مدینہ میں بھی موجود ہیں جو اپنے نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔ انہیں تم نہیں جانتے، ہم ہی جانتے ہیں، جلد ہی ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ [التوبہ: 101]
اس آیت کے الفاظ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ کی تفسیر میں سیدنا قتادہ اور ربیع بن انس کہتے ہیں کہ دو مرتبہ عذاب کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار دنیا میں اور دوسرا عذاب قبر ہے۔
اسی طرح قبر کے امتحان سے متعلق دو فرشتوں کے سوالات کے تذکرے پر مشتمل حدیث مبارکہ میں منافق کے نام کی صراحت موجود ہے، اور کچھ احادیث میں منافق یا مرتاب یعنی شک کرنے والا کے الفاظ ہیں، جیسے کہ صحیح بخاری: (1374) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا منقول ہے کہ: (جبکہ کافر اور منافق سے کہا جائے گا ۔۔۔) اسی طرح صحیحین ہی میں سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے مرفوعا منقول ہے کہ: (جبکہ منافق یا مرتاب یعنی شک کرنے والا کہے گا ۔۔۔)
- اللہ کی شریعت کو بایں طور بدلنا کہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو حلال جاننا اور حلال کردہ چیزوں کو حرام جاننا۔
اللہ تعالی کی شریعت میں اس طرح ملحدانہ حرکت عذاب قبر کا باعث بنتی ہے اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو جہنم میں کھینچ رہا ہے اور اسی عمرو نے جانوروں میں سے سائبہ بنانے کی ریت ڈالی تھی)
سائبہ: ایسی اونٹنی، گائے یا بکری ہے جس کا ذاتی استعمال حرام سمجھتے ہوئے اسے آزادانہ چھوڑ دیا جاتا تھا، لہذا اس پر کوئی سواری نہیں کرتا تھا، نہ ہی کوئی اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتا تھا، نہ ہی اس سے بار برداری کا کام لیا جاتا تھا، جبکہ کچھ لوگ اپنے مال میں سے بھی کچھ حصہ اپنے لیے حرام قرار دے دیتے تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور دیگر کی اولاد سے تعلق رکھنے والے عرب جو کہ سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے بنائے ہوئے بیت اللہ کے پڑوس میں رہتے تھے سب ہی سیدنا ابراہیم کی ملت اور دین پر تھے، تا آں کہ بنو خزاعہ کے کچھ سرکردہ لوگوں نے اس میں تبدیلیاں رونما کی، یہ عمرو بن لحی تھا جس نے دین ابراہیمی میں شرک کو شامل کیا اور ایسی چیزوں کو حرام قرار دیا جنہیں اللہ تعالی نے حرام قرار نہیں دیا تھا، اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کہتے ہیں : میں عمرو بن لحی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے۔" ختم شد
دقائق التفسیر (2/71)
- پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، اور لوگوں کی چغلی کرنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک بار نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: (یقیناً ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے وہ بھی کسی بڑے پاپ کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، جبکہ دوسرا شخص چغلی کیا کرتا تھا۔۔۔الحدیث ) اس حدیث کو امام بخاری: (218) اور مسلم : (292) نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عام طور پر عذاب قبر پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے، تم پیشاب سے بچو ۔) اس روایت کو دارقطنی نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح الترغیب: (1/152) میں صحیح قرار دیا ہے۔
- غیبت
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الجنائز میں یہ عنوان قائم کیا ہے کہ : "غیبت اور پیشاب کی وجہ سے عذاب قبر"
پھر انہوں نے اس کے بعد دو قبروں والی سابقہ روایت ذکر کی ہے، حالانکہ اس روایت میں غیبت کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں چغلی کا ذکر ہے، تو یہ روایت اس لیے ذکر کی کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ حدیث کی دیگر اسانید میں آنے والے الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛ تو باب قائم کر کے اسی کی طرف اشارہ ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ: "دوسرے کو غیبت کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے۔"
اسے امام احمد رحمہ اللہ (5/35) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے "صحيح الترغيب والترهيب" (1/66) میں صحیح قرار دیا ہے۔
- جھوٹ
اس بارے میں سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہم آگے بڑھے اور ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لیے کھڑا تھا اور یہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتا اور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیر تا اور اس کی ناک کو گدی تک چیر تا اور اس کی آنکھ کو گدی تک چیرتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیا کہ پھر وہ دوسری جانب جاتا ادھر بھی اسی طرح چیرتا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا ۔ و ہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی پہلی صحیح حالت میں لوٹ آتی ۔ پھر دوبارہ وہ اسی طرح کرتا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: میں نے کہا سبحان اللہ ! یہ دونوں کون ہیں ؟)
پھر حدیث کے آخر میں اس عذاب دئیے جانے والے شخص کے بارے میں فرمایا: (یہ وہ شخص ہے جو اپنے گھر سے نکلتا تو ایسا جھوٹ بولتا جو کہ دنیا کے کونوں تک پہنچ جاتا تھا۔۔۔) بخاری: (7074)
- قرآن سیکھنے کے بعد اسے چھوڑ دینا اور فرض نماز سے سوئے رہنا
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پھر ہم ایک لیٹے ہوئے شخص کے پاس آئے جس کے پاس ایک دوسرا شخص پتھر لیے کھڑا تھا اور اس کے سر پر پتھر پھینک کر مارتا تو اس کا سر پھٹ جاتا ‘ پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا ‘ لیکن وہ شخص پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لا تا اور اس لیٹے ہوئے شخص تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر ٹھیک ہو جاتا جیسے پہلے تھا ۔ کھڑا شخص پھر اسی طرح پتھر اس پر مارتا اور پھر وہی ہوتا جو پہلے ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں نے ان دونوں سے پوچھا سبحان اللہ یہ دونوں کو ن ہیں ؟)
اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ: (اور وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا ہے یہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے قرآن کریم سکھایا، لیکن وہ رات کو قیام نہ کرتا اور نہ ہی دن میں اس پر عمل کرتا تھا۔)
ایک روایت میں الفاظ کچھ یوں ہیں کہ: (اور وہ شخص جس کے پاس آپ آئے تھے اور اس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص تھا جس نے قرآن سیکھا اور پھر اسے یکسر چھوڑ دیا اور وہ فرض نمازوں سے سویا رہتا تھا۔) بخاری: (7076)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ روایت پہلی روایت سے واضح ہے کہ پہلی روایت میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ رات کو قیام نہ کرنے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جا رہا تھا، جبکہ دوسری روایت بتلاتی ہے کہ اسے فرض نمازوں سے سوئے رہنے کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا تھا۔
آپ رحمہ اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: اس بات کا بھی احتمال ہے کہ دونوں چیزوں کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہو کہ وہ قرآن پڑھتا بھی نہیں تھا اور اس پر عمل بھی نہیں کرتا تھا۔
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ابن ہبیرہ رحمہ اللہ نے کہا: قرآن کریم یاد کرنے کے بعد چھوڑ دینا بہت ہی بڑا جرم ہے؛ کیونکہ اس کے اس عمل سے یہ محسوس ہوتا ہے گویا قرآن کریم میں اسے کوئی ایسی چیز نظر آئی ہے جس کی وجہ سے اس نے قرآن سے اعراض کر لیا، تو جب اس نے قرآن کریم کی شکل میں سب سے افضل ترین چیز کو مسترد کیا تو بدلے میں سزا بھی یہی دی گئی کہ جسم کا سب سے افضل ترین عضو یعنی سر کو کچل کر سزا دی گئی۔" ختم شد
"فتح الباری" (3/251)
- سود خوری
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:( ہم آگے بڑھے اور ایک نہر پر آئے وہ خون کی طرح سرخ تھی اور اس نہر میں ایک شخص تیر رہا تھا اور نہر کے کنارے ایک دوسرا شخص تھا جس نے اپنے پاس سے پتھر جمع کر رکھے تھے اور یہ تیرنے والا تیرتا ہوا جب اس شخص کے پاس پہنچتا جس نے پتھر جمع کر رکھے تھے تو یہ اپنا منہ کھول دیتا اور کنارے کا شخص اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا وہ پھر تیرنے لگتا اور پھر اس کے پاس لوٹ کر آتا اور جب بھی اس کے پاس آتا تو اپنا منہ پھیلا دیتا اور یہ اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا ۔ فرمایا کہ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟)
اس حدیث کے آخر میں ہے کہ: (وہ شخص جس کے پاس آپ آئے تھے اور وہ نہر میں تیراکی کر رہا تھا اور پتھروں کو میں منہ ڈالتا جاتا تھا، تو وہ سود خور تھا۔)
- زنا
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:( پھر ہم ایک تنور جیسی چیز پر آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس میں شور و آواز تھی ۔ کہا کہ پھر ہم نے اس میں جھانکا تو اس کے اندر کچھ ننگے مرد اور عورتیں تھیں اور ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیتی تو وہ چلانے لگتے ۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ) فرمایا کہ میں نے ان سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ۔)
اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ: (برہنہ مرد اور عورتیں جو کہ تندور جیسی عمارت میں تھے وہ سب کے سب زنا کرنے والے مرد اور عورتیں تھیں۔)
- لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اور اپنے آپ کو بھول جانا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں نے اس رات دیکھا جب مجھے اسرا کا سفر کروایا گیا : کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ سے بنی ہوئی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں، تو میں نے کہا: اے جبریل! یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتلایا: یہ آپ کی امت کے خطیب حضرات ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے، حالانکہ وہ قرآن کریم پڑھتے بھی تھے تو کیا وہ سمجھتے نہیں تھے۔) اسے امام احمد: (3/120) نے روایت کیا ہے اور "سلسلہ صحیحہ" (291) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سنن بیہقی میں ہے کہ: (جس رات مجھے اسرا کروایا گیا میں ایک ایسی قوم کے پاس آیا جن کے ہونٹ آگ سے بنی ہوئی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، جب بھی قینچی کاٹتی تو ہونٹ پورا ہو جاتا تھا۔ میں نے کہا: جبریل یہ کون لوگ ہیں؟ تو جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے، اور اللہ کا قرآن تو پڑھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔) اسے بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے، اور البانی ؒ نے اسے "صحيح الجامع" (128) میں حسن قرار دیا ہے۔
سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور دونوں نے مجھے میرے بازو سے پکڑا اور دونوں ہی مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آئے اور دونوں نے مجھے کہا: اس پر چڑھ جاؤ۔ تو میں نے کہا: میں تو اس پر نہیں چڑھ سکتا، تو دونوں نے کہا: ہم آپ کے لیے چڑھنا آسان کر دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تو میں چڑھنے لگا یہاں تک کہ میں جب پہاڑ کنارے پر پہنچا تو مجھے بہت زیادہ آوازیں سنائی دینے لگیں، میں نے کہا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟ تو ایک نے کہا: یہ جہنمی لوگوں کی چیخ و پکار ہے، پھر مجھے وہ آگے لے گئے، تو کچھ لوگوں کو ان کی ایڑھیوں کے بل لٹکایا گیا تھا، اور ان کی بانچھیں پھٹی ہوئی تھیں، اور ان کی بانچھوں سے خون بہہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا: میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ تو اس نے کہا: یہ روزے کا وقت ہونے سے پہلے روزہ کھول لیتے تھے۔) اس حدیث کو ابن حبان اور حاکم (1/290،210) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے "سلسلہ صحیحہ" (3951) میں صحیح قرار دیا ہے۔
- مال غنیمت میں خیانت کرنا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایسے شخص کے بارے میں حدیث جس نے کسی غزوے میں کپڑے کی خیانت کی تھی، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں فرمایا تھا: (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یقیناً خیبر کے دن اس نے مال غنیمت میں سے جو چادر تقسیم سے پہلے لی تھی ، وہ اس پر آگ بن کر بھڑکی ہوئی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4234) اور مسلم : (115) نے روایت کیا ہے۔
یہاں مالِ غنیمت میں سے خیانت کا مطلب یہ ہے کہ: مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اور سالارِ لشکر کی اجازت کے بغیر کوئی بھی چیز اٹھا لینا۔
- ٹخنوں سے نیچے لباس لٹکانا
اس پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک شخص اپنی تہہ بند ٹخنے سے نیچے لٹکائے ہوئے گھسیٹ رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، اور وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا رہے گا۔)اس حدیث کو امام بخاری: (3485) اور مسلم : (2088) نے روایت کیا ہے۔
- حجاج کی چوری کرنا
اس کی دلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی نماز کسوف والی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:(میرے پاس جہنم کو لایا گیا ، اور یہ اس وقت ہوا تھا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹا ہوں، مجھے ڈر لگا کہ کہیں مجھے آگ کے شعلے جھلسا نہ دیں، اور میں نے آگ میں کھونڈی والے کو بھی دیکھا جو اپنی آنتیں کھینچ رہا تھا؛ یہ شخص حاجیوں کی چوری اپنی کھونڈی کے ذریعے کیا کرتا تھا، اگر تو کوئی اسے پکڑ لیتا تو کہتا کہ یہ چیز میری کھونڈی سے اڑ گئی تھی ، اور اگر کوئی اس کی طرف توجہ نہ دیتا تو سامان لے کر نکل جاتا تھا۔) صحیح مسلم: (904)
- جانور کو قید کر کے تکلیف دینا اور اس پر ترس نہ کھانا
اس کی دلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی نماز کسوف والی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں نے جہنم میں بلی والی خاتون کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور اسے کھانے کے لیے کچھ نہ دیا نہ ہی اسے کھلا چھوڑا کہ وہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے، تا آں کہ بلی بھوک سے مر گئی۔) مسلم: (904)
امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "إثبات عذاب القبر" (ص: 97) میں کہتے ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت نماز کسوف پڑھائی تو ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنی آنت جہنم میں کھینچ رہا تھا، اور چوری کی وجہ سے عذاب دیا جانے والا شخص بھی دیکھا، اور بلی کی وجہ سے عذاب دی جانے والی خاتون کو بھی دیکھا، حالانکہ ان کے بارے میں ان کے زمانے کے لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ نیز یہ عذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کرنے والے دیگر لوگوں کو بھی نظر نہیں آیا۔" ختم شد
میت کے لیے قبر میں قرض نقصان دہ ثابت ہو گا، چنانچہ سیدنا سعد بن الاطول کہتے ہیں کہ میرا بھائی فوت ہو گیا اور 300 دینار ترکے میں چھوڑ گیا، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے، تو میں نے چاہا کہ بچوں کی کفالت کے لیے پیسے خرچ کروں، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارا بھائی قرض کی وجہ سے قید میں ہے، اس لیے جاؤ اور اس کا قرض ادا کرو) وہ کہتے ہیں کہ: میں گیا اور اس کا سارا قرض ادا کر کے واپس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے ان کی طرف سے سارا قرض ادا کر دیا ہے صرف ایک عورت باقی ہے جو دو دینار قرض کا دعوی کر رہی ہے، لیکن اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسے دو دینار دے دو، وہ سچ کہہ رہی ہے۔) اسے مسند احمد: (16776) اور ابن ماجہ: (2/82) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے "صحيح الجامع" (1550) میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم