سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دينى گانوں كا حكم، اور گاڑيوں اور دوكانوں ميں گانے سننا

47996

تاریخ اشاعت : 10-09-2007

مشاہدات : 7985

سوال

غزليں گانے اور گانے سننے كا حكم كيا ہے ؟
اور اگر يہ حرام ہيں تو دينى گانے سننے كا حكم كيا ہو گا ؟
اور بغير ارادہ و قصد مثلا بس يا دوكان وغيرہ ميں گانے سننے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر گانے ميں موسيقى استعمال كى گئى ہو گانا اور سننا حرام ہے چاہے يہ مرد كى جانب سے ہو يا عورت كى جانب سے، اس ميں صرف مستثنى وہى ہے جو عيد اور شادى بياہ يا كسى كے سفر سے واپس آنے كے موقع پر صرف عورتوں كى جانب سے دف بجا كر اشعار پڑھے گئے ہوں، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 5000 ) اور ( 20406 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے.

رہا مسئلہ دينى گانے اور اشعار كا اگر تو اس ميں موسيقى استعمال كى گئى ہو، يا يہ عورت پڑھے اور مرد سنيں تو يہ حرام ہے، اور اس حالت ميں انہيں دينى گانے كا نام دينا كسى چيز كو اسے كوئى اور نام ديكر دھوكہ و فراڈ ميں شامل ہوتا ہے تا كہ لوگ اسے قبول كر ليں، اور يہ گانے دينى كس طرح بن سكتے ہيں حالانكہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے حرام كيا ہے ؟!

ليكن اگر اس ميں موسيقى نہ ہو، اور نہ ہى اس ميں عشق و محبت كے اشعار شامل ہوں بلكہ مفيد اور جائز كلام كى گئى ہو، اور پڑھنے والا مرد ہو تو پھر جائز ہونگے، ليكن پھر بھى كثرت سے انہيں سننا نہيں چاہيے.

اسلامى اشعار اور نظموں اور ترانے كے متعلق مستقل فتوى كميٹى نے ايك تفصيلى فتوى جارى كيا ہے، جسے ہم ذيل ميں درج كرتے ہيں:

" موجودہ شكل ميں پائے جانے والے گانوں كى حرمت كے متعلق آپ نے جو حكم لگايا ہے اس ميں آپ سچے ہيں، كيونكہ يہ گانے گرى اور ساقط قسم كى كلام پر مشتمل ہوتے ہيں، جن ميں كوئى خير نہيں، بلكہ اس ميں لہو اور جنسى خواہشات كو ابھار ملتا ہے، اور اسے سننے والا شخص شر ميں مبتلا ہو جاتا ہے، اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى رضا و خوشنودى كے عمل كرنے كى توفيق بخشے.

آپ كے ليے جائز ہے كہ آپ ان گانوں كے عوض ميں اسلامى نظميں اور ترانے سن ليں، جو حكمت اور پند و نصائح اور عبرت پر مشتمل ہوں، اور دينى غيرت و حميت كو ابھاريں، اور اسلامى خيالات پيدا كريں، اور شر اور اس كے اسباب سے نفرت دلائيں، تا كہ اسلامى ترانے اور نظميں پڑھنے اور سننے والے كو اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى طرف بلائے، اور اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى اور اس كى حدود سے تجاوز نفرت پيدا كر كے اس كى شريعت اور جھاد فى سبيل اللہ كى پناہ كى طرف لے جائے.

ليكن وہ ان نظموں اور ترانے كى سماعت كو اپنى عادت نہ بنا لے كہ وہ مسلسل اسے ہى سنتا رہے، بلكہ وہ انہيں مختلف مواقع اور وقتا فوقتا سنے جب ضرورت پيش آئے مثلا شادى بياہ كے موقع پر، يا پھر جہاد كے سفر كے موقع وغيرہ پر، اور نفس كو خير و بھلائى كے كاموں پر ابھارنے كے وقت، اور جب نفس كسى شر و برائى پر آمادہ ہو رہا ہو اس وقت اسے اس شر سے نفرت دلانے اور روكنے كے ليے.

ليكن اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز تو يہ ہے كہ وہ قرآن مجيد كى تلاوت كرے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ دعائيں اور اذكار پڑھ لے، كيونكہ نفس كے ليے يہ زيادہ پاكيزہ اور طاہر ہے، اور اس ميں ہى اطمنان قلب اور شرح صدر ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ نے بہتر اور اچھى ترين كلام نازل كى ہے، جو ايسى كتاب ہے كہ آپس ميں ملتى جلتى ہے، بار بار دہرائى ہوئى آيتوں كى ہے، جس سے ان لوگوں كے رونگٹے كھڑے جاتے ہيں جو اپنے رب سے ڈرتے ہيں، پھر ان كى جسم نرم پڑ جاتے ہيں، اور دل اللہ تعالى كے ذكر كى طرف مائل ہو جاتے ہيں، يہ اللہ كى ہدايت ہے جسے چاہے اللہ تعالى ہدايت ديتا ہے، اور جس كو اللہ تعالى گمراہ كر دے اسے كوئى بھى ہدايت دينے والا نہيں الزمر ( 23 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اسطرح ہے:

جو لوگ ايماندار ہيں ان كے دل اللہ تعالى كے ذكر اور ياد سے مطمئن ہوتے ہيں، خبردار اللہ تعالى كے ذكر سے ہى دلوں كو اطمنان حاصل ہوتا ہے جو لوگ ايمان لائے اور اعمال صالحہ كيے ان كے ليے خوشخبرى ہے اور ان بہتر ٹھكانا ہے الرعد ( 28 - 29 ).

صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كى حالت اور عادت تو يہ تھى كہ وہ كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو حفظ كرتے اور اس پر عمل كرتے، اور اس كے ساتھ ساتھ مختلف مواقع مثلا خندق كھودتے وقت اور مسجد بناتے وقت، اور ميدان جہاد كى طرف جاتے ہوئے اسلامى اشعار بھى پڑھا كرتے تھے، ليكن انہوں نے اسے اپنى علامت اورشعار نہيں بنايا تھا، كہ يہى ان كا اہم كام ہو، اور وہ اسى كا خيال كريں، ليكن يہ چيز اس ميں شامل تھى جس سے وہ راحت حاصل كرتے، اور اپنے جذبات ابھارتے تھے.

رہا ڈھول اور طبل اور دوسرے گانے بجانے كے آلات تو ان نظموں اور اشعار ميں ان آلات ميں سے كسى بھى آلہ كا استعمال جائز نہيں، كيونكہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اور نہ ہى صحابہ كرام نے اس پر عمل كيا.

اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 532 ).

رہا مسئلہ بغير قصد و ارادہ كے موسيقى اور گانے سننا، مثلا اگر كوئى شخص كسى دوكان پر جائے تو وہاں گانے لگے ہوں اور وہ اس ميں دھيان نہ دے تو اس پر كوئى گناہ نہيں، كيونكہ سننا حرام ہے، نہ كہ اس كى آواز بغير ارادہ و قصد كے كان ميں پڑنا، ليكن انسان كو چاہيے كہ وہ اسے اس برائى سے روكنے كى كوشش كرے، اور اسے نصيحت كرے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا مسئلہ بغير قصد و ارادہ كے سننا، مثلا كوئى شخص راہ چل رہا ہو تو كسى دوكان يا گاڑى ميں موسيقى لگى ہو اور وہ اس كے كان ميں پڑ جائے، يا اگر كسى كے گھر ميں جائے تو وہاں پڑوسيوں كے گھر سے موسيقى كى آواز آ رہى ہو اور وہ اس كے كان ميں پڑ جائے ليكن وہ سننا نہيں چاہتا تو يہ اس معاملہ مغلوب شخص ہے، اس پر گناہ نہيں، ليكن اسے چاہيے كہ وہ حكمت و دانائى اور بہتر نصيحت كے ساتھ اس برائى كو روكے، اور حتى الامكان اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كرے، اور اپنى طاقت ميں رہتے ہوئے اس كام كو كرے، كيونكہ اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 389 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب