سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

تين مسجدوں كے علاوہ كہيں اعتكاف نہيں ہے

سوال

ميں نے ايك حديث سنى ہے كہ: مسجد حرام، اورمسجد نبوي اور مسجد اقصى كے علاوہ كہيں اعتكاف كرنا صحيح نہيں " تو كيا يہ حديث صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جس حديث كى طرف سائل نےاشارہ كيا ہے اسے امام بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو كہا: ميں نے ان لوگوں كے پاس سے گزرا جو آپ اور ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كے گھر كے مابين ( مسجد ميں ) اعتكاف كيے ہوئے تھے، اور مجھے علم تھا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" تين مساجد كے علاوہ اعتكاف نہيں ہے: مسجد حرام "

تو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: لگتا ہے آپ بھول گئے ہيں اور انہوں نے ياد ركھا، اور تو غلط ہے، اور وہ صحيح ہيں.

سنن بيھقى ( 4 / 315 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 2876 ) ميں صحيح كہا ہے.

دوم:

اور اس مسئلہ كے حكم ميں جمہور علماء كرام كا مسلك يہ ہے كہ اعتكاف كے ليے ان تين مسجدوں ميں سے ايك ميں اعتكاف كرنا شرط نہيں اور انہوں نے مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم ان سے مباشرت نہ كرو اس حال ميں كہ تم مساجد ميں اعتكاف كيے ہوئے ہو البقرۃ ( 187 ).

اور اس آيت ميں مساجد كا لفظ عام ہے جو كہ ہر مسجد كو شامل ہے ليكن جس پر دليل مل جائے كہ اس مسجد ميں اعتكاف كرنا صحيح نہيں، مثلا وہ مسجد جس ميں نماز باجماعت نہيں ہوتى، جبكہ اعتكاف كرنے والے پر نماز باجماعت فرض ہو.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 48985 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے آيت كے عموم سے استدل كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے:

آخرى عشرہ ميں سب مساجد ميں اعتكاف كرنے كا باب كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم ان عورتوں سے مباشرت نہ كرو كہ تم مسجدوں ميں اعتكاف كيے ہوئے ہو، يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں ان كے قريب بھى نہ جاؤ، اسى طرح اللہ تعالى اپنى آيات لوگوں كے ليے بيان كرتا ہے تا كہ وہ متقى بن جائيں اھـ

اور آج تك مسلمان اپنے ملك كى مساجد ميں اعتكاف كرتے چلے آئے ہيں، جيسا كہ امام طحاوى رحمہ اللہ تعالى نے " مشكل الآثار " ميں ذكر كيا ہے.

ديكھيں: مشكل الآثار ( 4 / 205 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

تينوں مساجد: مسجد حرام، مسجد نبوي، اور مسجد اقصى ميں اعتكاف كرنے كا حكم كيا ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

تينوں مساجد: مسجد حرام، مسجد نبوى، اور مسجد اقصى كے علاوہ باقى مساجد ميں بھى اعتكاف كے وقت ميں اعتكاف كرنا مشروع ہے، اور يہ صرف تين مساجد كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ ان تين مساجد ميں اور ان كے علاوہ باقى دوسرى مساجد ميں بھى اعتكاف ہو سكتا ہے، يہ سب مسلمان آئمہ كرام جن كے مسلك كى اتباع كى جاتى ہے كا مسلك ہے، مثلا امام احمد، امام شافعى، امام مالك، اور امام ابو حنيفہ وغيرہ رحمہم اللہ جميعا.

كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم ان عورتوں سے مسجدوں ميں اعتكاف كرنے كى حالت ميں مباشرت نہ كرو، يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں ان كے قريب بھى نہ جاؤ، اللہ تعالى اسى طرح اپنى آيات لوگوں كے ليے بيان كرتا ہے تا كہ وہ متقى بن جائيں.

اور مساجد كا لفظ عام ہے جو زمين ميں سب مساجد كے ليے ہے، اور يہ جملہ روزوں كى آيات كے آخر ميں بيان ہوا ہے جس كا حكم سارى زمين پورى امت كو شامل ہے، اور جسے روزے ركھنے كا خطاب ہے وہ لوگ اس خطاب ميں بھى شامل ہيں، اسى ليے سياق اور خطاب ميں متحد يہ احكام اس فرمان كے ساتھ ختم ہوئے ہيں:

يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں، لہذا ان كے قريب بھى نہ جاؤ، اسى طرح اللہ تعالى لوگوں كے ليے اپنى آيات بيان كرتا ہے تا كہ وہ متقى بن جائيں.

اور بہت بعيد ہے كہ اللہ تعالى امت كو ايسے خطاب سے مخاطب ہو جس ميں امت كے بہت قليل سے لوگ شامل ہوں، اور رہى حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث:

" تين مساجد كے علاوہ اعتكاف نہيں "

تو اگر يہ قدح و جرح سے سليم رہے تو يہ نفى كمال كے ليے ہے، يعنى سب سے زيادہ كامل اعتكاف وہ ہے جو ان تين مساجد ميں ہو، اور يہ ان مساجد كےشرف اور فضل كى بنا پر ہے، اور اس طرح كى تركيب بہت زيادہ ہے ميرى مراد يہ ہے كہ بعض اوقات اس سے نفى كمال مراد ہوتى ہے، نہ كہ حقيقت اور صحت كى نفى ـ مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كھانے كى موجودگى ميں نماز نہيں ہوتى " اور اس طرح كى دوسرى احاديث.

اور اس ميں كوئى شك نہيں نفى ميں اصل چيز تو حقيقت شرعيہ يا حقيقت حسى كى نفى ہے، ليكن اگر اس كو منع كرنے والى كوئى دليل پائى جائے تو اسے لينا متعين ہو گا، جيسا كہ حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے، يہ اس وقت ہے جب يہ جرح وقدح سے سليم مانى جائے. واللہ اعلم. اھـ

ديكھيں: فتاوى الصيام صفحہ نمبر ( 493 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

" تين مساجد كے علاوہ كہيں اعتكاف نہيں " كيا يہ حديث صحيح ہے؟

اور اگر يہ حديث صحيح ہو تو كيا اس كا معنى يہ ہے كہ ان تين مساجد كے علاوہ كہيں اعتكاف نہيں ہو سكتا ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

ان تين مساجد كے علاوہ دوسرى مساجد ميں بھى اعتكاف صحيح ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس مسجد ميں نماز باجماعت ادا كى جاتى ہو، اور اگر اس مسجد ميں نماز باجماعت ادا نہيں ہوتى تو اس ميں اعتكاف كرنا صحيح نہيں ليكن اگر كوئى شخص ان تين مساجد ميں اعتكاف كرنے كى نذر مانے تو اسے نذر پورى كرنے كے ليے اس ميں اعتكاف كرنا لازم ہو گا" اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 15 / 444 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب