سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نماز عيد كے بعد مصافحہ اور معانقہ كرنے اور مباركباد دينے كا حكم

سوال

عيد كى مبارك دينے كا حكم كيا ہے ؟
اور نماز عيد كے بعد مصافحہ اور معانقہ كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحابہ كرام سے وارد ہے كہ وہ ايك دوسرے كو عيد كى مباركباد ديا كرتے اور يہ كہتے:

تقبل اللہ منا و منكم.

اللہ تعالى ہم اور تم سے قبول فرمائے.

جبير بن نفير بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام عيد كے روز جب ايك دوسرے كو ملتے تو ايك دوسرے كو كہتے:

تقبل اللہ منا و منك: اللہ تعالى مجھ اور آپ سے قبول فرمائے.

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں كوئى حرج نہيں كہ ايك شخص دوسرے كو عيد كے روز تقبل اللہ منا و منكم كے الفاظ كہے. ابن قدامہ رحمہ اللہ نےاسے المغنى ميں نقل كيا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

" كيا عيد مبارك اور لوگوں كى زبانوں پر جو عيد مبارك كے الفاظ ہيں جائز ہيں؟ كيا شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى دليل ملتى ہے يا نہيں ؟

اور اگر شرعي دليل ہے تو پھر كيا كہا جائے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جب عيد كے روز نماز عيد كے بعد لوگ ايك دوسرے كو مليں تو انہيں ايك دوسرے كو تقبل اللہ منا و منك و احالہ اللہ عليك وغيرہ كے الفاظ كہيں، صحابہ كرام كى ايك جماعت سے ايسا كرنا مروى ہے، اور اس ميں آئمہ كرام مثلا امام احمد وغيرہ نے رخصت دى ہے.

ليكن امام احمد كہتے ہيں: ميں خود ابتدا ميں كسى كو يہ نہيں كہتا ليكن اگر مجھے كوئى كہے تو ميں جواب ميں يہى الفاظ كہتا ہوں، كيونكہ تحيۃ كا جواب واجب ہے، ليكن مباركباد دينے كى ابتدا كرنا سنت مامورہ نہيں ہے، اور نہ ہى اس سے منع كيا گيا ہے، اس ليے جو يہ فعل كرتا ہے اس كے پاس قدوہ ہے، اور جو نہيں كرتا اس كے پاس بھى قدوہ ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 228 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

عبد كى مباركباد دينے كا حكم كيا ہے ؟

اور كيا اس كے كوئى خاص الفاظ ہيں ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" عيد كى مباركباد دينا جائز ہے، اور اس كے ليے كوئى جملہ مخصوص نہيں، بلكہ لوگ جس كے عادى ہوں وہى جائز ہے جبكہ وہ گناہ نہ ہو" اھـ

اور شيخ كا يہ بھى كہنا ہے:

" بعض صحابہ كرام سے بھى عيد كى مباركباد دينا ثابت ہے، اور اگر فرض كريں نہ بھى ہو تو اس وقت يہ ايك عادى معاملا بن چكا ہے جس كے لوگ عادى ہيں، اور رمضان المبارك كى تكميل اور قيام كے بعد عيد كے روز ايك دوسرے كو مباركباد ديتے ہيں" اھـ

شيخ رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

نماز عيد كے بعد مصافحہ اور معانقہ كرنے كا حكم كيا ہے ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" ان اشياء ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ لوگ اسے بطور عبادت اور اللہ تعالى كا قرب سمجھ كر نہيں كرتے، بلكہ لوگ يہ بطور عادت اور عزت و اكرام اور احترام كرتے ہيں، اور جب تك شريعت ميں كسى عادت كى ممانعت نہ آئے اس ميں اصل اباحت ہى ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 208- 210 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب