سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

جہالت كى بنا پر محظورات كا ارتكاب كرنے والے پر كيا مرتب ہوتا ہے ؟

سوال

اگر كوئى شخص محظورات احرام ميں كسى كا مرتكب ہو اور وہ اس محظور كے ارتكاب ميں كفارہ واجب ہونے سے جاہل ہو تو ايسے شخص كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلى بات تو يہ ہے كہ يہاں ايك تنبيہ ضرورى ہے كہ بہت سے حجاج اور معتمرين كا حج اور عمرہ كے اعمال سے جاہل ہونا ہى انہيں محظورات احرام كے ارتكاب كى طرف دھكيلتى ہے، يا پھر مطلوبہ طريقہ پر عبادت سرانجام نہ دينے كى بنا پر ايسا ہوتا ہے؛ آپ ديكھتے ہيں كہ ان ميں سے ايك شخص نے بہت رقم خرچ كى خاص كر جب وہ دور دراز كے ملك سے آتا ہے اور پھر وہ اس سے اپنا اجروثواب ضائع كر بيٹھتا ہے يا پھر اس ميں كمى اور نقص واقع كر ليتا ہے، كيونكہ وہ اپنے اوپر واجب احكام سے جاہل ہے.

اس ليے جو شخص بھى حج اور عمرہ كرنا چاہتا ہے اسے چاہيے كہ وہ اسے شروع كرنے سے قبل اس كے متعلقہ احكام سيكھے، كيونكہ حديث ميں علم كى اہميت بيان ہوئى ہے.

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر مسلمان شخص پر علم حاصل كرنا فرض ہے "

اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " مشكلۃ الفقر كى تخريج ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس كا معنى يہ ہے كہ جس كا وہ محتاج ہے اسے اس كا علم حاصل كرنا لازم ہے، وضوء كرنے كا طريقہ، نماز, اور اگر مال ہو تو زكاۃ اور اسى طرح حج وغيرہ كا طريقہ.

ديكھيں: جامع بيان العلم لابن عبد البر ( 1 / 52 ).

اور حسن بن شقيق رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميں نے عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا:

لوگوں پر كيا علم حاصل كرنا واجب ہے ؟

تو ان كا جواب تھا:

آدمى كوئى بھى كام علم كے بغير نہ كرے؛ اسے سوال كرنا اور اس كى تعليم حاصل كرنى چاہيے، علم سيكھنے كے متعلق لوگوں پر يہى كچھ واجب ہے.

ديكھيں: الفقيہ المتفقہ للبغدادى ( 45 ).

اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں اسى كا باب باندھتے ہوئے كہا ہے:

" باب العلم قبل القول والعمل " قول اور عمل سے قبل علم حاصل كرنے كے متعلق باب.

اس كا معنى يہ نہيں كہ ہر شخص حج كے اعمال كے متعلق كوئى كتاب حفظ كرے، بلكہ ہر مسلمان پر واجب ہے كہ وہ اپنى حالت كے مطابق بنفسہ تعليم حاصل كرے، اگر اس كے پاس اس كى اہليت ہے، يا پھر اہل علم سے اس كے متعلق دريافت كرے، يا ايسے لوگوں كے ساتھ حج اور عمرہ كرے جو ضرورت كے وقت اسے حج اور عمرہ كے احكام بتاتے رہيں.

اور رہا مسئلہ محظورات احرام كے متعلق يعنى احرام ميں ممنوعہ اشياء تو اس كا بيان سوال نمبر ( 11356 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.

ليكن جس شخص نے ان محظورات احرام كا ارتكاب كيا اور وہ اس سے جاہل ہے كہ اللہ تعالى نے احرام كى حالت ميں يہ اشياء اس پر حرام كى ہيں تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم پر اس ميں كوئى گناہ نہيں جو تم بھول كر كرلو، ليكن گناہ اس ميں ہے جو تمہارے دل كے ارادے سے ہوں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الاحزاب ( 5 ).

ليكن اگر اسے علم ہو كہ وہ جس كام كا مرتكب ہو رہا ہے وہ محظورات احرام ميں سے ہے جو كہ احرام كى حالت ميں اس پر حرام ہے، ليكن وہ اس كا گمان نہيں ركھتا كہ اس كا ارتكاب كرنے سے يہ سارے احكام مرتب ہوتے ہيں تو اس كے متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( يہ كوئى عذر نہيں؛ كيونكہ عذر يہ ہے كہ انسان حكم سے جاہل ہو، اسے علم نہ ہو كہ يہ چيز حرام ہے، ليكن اس كے فعل پر مرتب ہونے والى چيز سے جہالت كوئى عذر نہيں، اسى ليے اگر كوئى شادى شادہ شخص يہ علم ركھتا ہے كہ زنا حرام ہے، اور وہ عاقل اور بالغ ہو اور اس ميں شادى شدہ كى شروط پورى ہوتى ہوں تو اسے رجم كرنا واجب ہو گا، اگرچہ وہ يہ كہتا رہے كہ مجھے علم نہيں تھا كہ اس كى حد رجم ہے، اگر مجھے علم ہوتا كى اس كى حد رجم ہے تو ميں اس كا مرتكب نہ ہوتا.

تو ہم كہينگے كہ يہ كوئى عذر نہيں، آپ كو رجم كيا جائيگا، اگرچہ آپ كو زنا كى سزا كا علم نہ تھا، اور اسى ليے جب وہ شخص جس نے رمضان المبارك ميں دن كے وقت زنا كر ليا تھا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور اس كے متعلق دريافت كيا كہ اس پر كيا لازم آتا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس پر كفارہ لازم كيا حالانكہ جماع كے وقت وہ اس سے جاہل تھا كہ اس پركيا واجب ہوتا ہے، تو يہ اس كى دليل ہے كہ اگر انسان كسى معصيت كى جرات كرتا اور اللہ تعالى كى حرمت اور حد كو پامال كرتا ہے تو اس پر اس معصيت كے آثار مرتب ہونگے، چاہے وہ ارتكاب كے وقت اس كے آثار كو نہ جانتا ہو.

ديكھيں: الفتاوى ( 22 / 173 - 174 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب