الحمد للہ.
حكم علت كے موجودگى اور عدم موجودگى كے ساتھ ہى گھومتا ہے اس ليے اگر ماہوارى كا معروف خون آئے تو عورت پر حيض كے احكام لاگو ہونگے اور وہ نماز روزہ اور جماع كے قريب نہيں جا سكتى يہ سب كچھ اس كے ليے حرام ہے، چاہے ايك ماہ ميں كئى بار آجائے، اور چاہے ہر ماہ عام عادت سے بھى زيادہ دن آتا ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
اگر كسى عورت كو ماہوارى آئے اور ماہوارى ختم ہونے كے بعد پاك صاف ہو كر غسل كرلے پھر نو روز تك نماز ادا كرنے كے بعد دوبارہ ماہوارى كا خون آئے اور تين روز تك يہ خون جارى رہنے كى بنا پر نماز ترك كى اور پھر گيارہ يوم تك پاك صاف رہى اور نماز بھى ادا كى اور اس كے بعد عادت كے مطابق ماہوارى شروع ہو گئى تو كيا ان تين روز كى نمازيں لوٹائے گى يا كہ يہ تين روز بھى ماہوارى كے ہى شمار ہونگے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
حيض كا خون جب بھى آئے تو وہ حيض ہى شمار ہوتا ہے، چاہے پہلے اور دوسرے حيض كے مابين مدت زيادہ ہو يا كم، اس ليے اگر كسى عورت كو ماہوارى آئے اور پاك صاف ہونے كے پانچ يا چھ يا دس روز كے بعد دوبارہ ماہوارى آ جائے تو وہ نماز روزہ ترك كر دےگى، كيونكہ يہ حيض كا خون ہے اور ہميشہ اسى طرح جب بھى ماہوارى آئے تو اس كے ليے نماز روزہ ترك كرنا واجب ہے.
ليكن اگر مستقل طور پر ہميشہ خون جارى رہتا ہو، يا پھر بہت ہى كم مدت ركے تو پھر يہ عورت استحاضہ كا شكار ہے، اس صورت ميں وہ صرف عام ماہوارى كے ايام ہى نماز روزہ ترك كرےگى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 ) سوال نمبر ( 230 ).
واللہ اعلم .