الحمد للہ.
اول :
مومن پرواجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کومانتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے اگرچہ اسے ان کی حکمت نہ بھی معلوم ہوبلکہ اسے توصرف یہی کافی ہے کہ یہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اور( دیکھو ) کسی مومن مرد وعورت کو اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئي اختیارباقی نہيں رہتا ، ( یاد رکھو ) اللہ تعالی اوراس کے رسول کی جوبھی نافرمانی کرےگا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا الاحزاب ( 51 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
ایمان والوں کا قول تویہ ہوتا ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان میں فیصلہ کردے تووہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اورمان لیا ، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں النور ( 51 ) ۔
دوم :
مومن کاپختہ ایمان اوریقین ہے کہ اللہ تعالی حکیم اوراس کا کوئي کام بھی حکمت سے خالی نہیں ، اس نے جو بھی کام مشروع کیا ہے اس میں کوئي نہ کوئي حکمت بالغہ ہے ، اللہ تعالی اسی چيز کا حکم دیتے ہیں جس میں کوئي نہ کوئي مصلحت اورحکمت ہوتی ہے ۔
اورجس چيزسے بھی منع کرتا ہے اس میں کوئي نہ کوئی فساد ہوتا ہے یا پھر اس میں فساد غالب ہوتا ہے ، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے البدایۃ والنھايۃ میں کیا ہی خوب کہا ہے :
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کامل اوراکمل شریعت ہے ، عقلیں جس چيز کو بھی معروف اوراچھا سمجھتی ہيں شریعت اسلامیہ نے اس کا حکم دیا ہے ، اورجس چيز کوبھی عقل منکر اوربرائي سمجھتی ہے اس سے شریعت اسلامیہ نے روکا اور منع کردیا ، کوئي بھی ایسا حکم نہیں دیا جس کے بارہ میں یہ کہاجائے اس کا حکم کیوں دیا گيا ہے ، اوراورکسی بھی ایسی چيز سے منع نہیں کیا گیا کہ اس کے بارہ میں کہا جائے کہ اس سے منع کیوں نہیں کیا گیا ۔ ا ھـ
دیکھیں البدايـۃ والنھایۃ ( 6 / 79 ) ۔
لیکن بعض اوقات توہمیں اس کی حکمت کا علم ہوجاتا ہے اوربعض اوقات اس کی حکمت ہم پرمخفی ہی رہتی ہے ، اوربعض اوقات تواکثر یا غالبا حکمتیں تو مخفی ہی رہتی ہیں ۔
سوم :
علماء کرام کا اجماع ہے کہ حائضہ عورت پر روزے رکھنے حرام ہیں ، اور اگر اس پر روزے واجب ہوں مثلا رمضان کے روزوں کی طرح تووہ حالت میں حيض میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء لازما کرے گی ۔
علماء کرام کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر وہ حالت حيض میں روزے رکھ بھی لے تو اس کا روزہ صحیح نہيں ہوگا ، آپ اس کی تفصیل کےلیے سوال نمبر ( 50282 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔
حائضہ عورت کا روزہ صحیح نہ ہونے کی حکمت میں علماء کرام کا اختلاف ہے ۔
بعض علماء کا کہنا ہے : ہمیں اس کی حکمت معلوم نہيں ۔
امام الحرمین کا کہنا ہے : اس کا روزہ صحیح نہ ہونے کے معنی کا ادراک نہيں کیا جاسکتا ، اس لیے کہ روزے کے لیے طہارت وپاکيزگي شرط نہيں ۔ اھـ دیکھیں : المجموع ( 2 / 386 ) ۔
اورکچھ دوسرے علماء کرام کا کہنا ہے : بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے حائضہ عورت پر رحم کرتے ہوئے اسے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے ، اس لیے کہ خون کے اخراج سے کمزوری ہوجاتی ہے ، اوراگر وہ روزہ بھی رکھے تواس میں اورزيادہ کمزوری ہوگی کیونکہ حیض اورروزہ دونوں کی کمزوری جمع ہوجائے گی جس کی بنا پر روزہ اسے اعتدال پرقائم نہيں رہنے دے گا ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اس سے نقصان پہنچے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :
ہم حیض کی حکمت اوراس کا قیاس کے مطابق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یقینا شریعت اسلامیہ ہر چيز میں عدل وانصاف لائي ہے اورعبادات میں اسراف ظلم وزيادتی ہے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے اورعبادات میں میانہ روی کا حکم دیا ہے ، اسی لیے شارع نے افطاری میں جلدی اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا اوروصال ( یعنی بغیر افطاری کیے دوسرا روزہ رکھنا ) منع کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( افضل اورعادلانہ روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن نہيں رکھتے تھے ) ۔
لھذا عبادات میں عدل مقاصد شریعت کا سب سےبڑا مقصدہے ، اوراسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا :
اے ایمان والو ! اللہ تعالی نے تمہارے لیے جو پاکيزہ چيزیں حلال کی ہیں ان کوحرام مت کرو ، اورحد سے تجاوز نہ کرو ، بے شک اللہ تعالی حد سے تجاوز کرنے والوں سے محبت نہيں کرتا المائدۃ ( 87 ) ۔
تو اللہ تعالی نے اس آيت میں حلال اشیاء حرام کرنے زیادتی قرار دیا ہے جوعدل کے بھی مخالف ہے ۔
اورایک مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
یھودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پرحلال کردہ پاکيزہ اشیاء کوحرام کردیا اوران کے اللہ تعالی کے راستے سے بہت زيادہ روکنے کے سبب ، اوران کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ کہ انہیں اس سے منع کیا گيا تھا ۔
جب وہ لوگ ظالم تھے تواس وجہ سے ان پر بطور سزا پاکیزہ اشیاء بھی حرام کردی گئيں ، لیکن اسے برعکس امت وسط اورامت عدل کے لیے پاکيزہ اشیاء کوحلال کیا گیا اوران پر گندی اورخبیث اشیاء حرام قرار دی گئيں ۔
اورجب معاملہ یہی ہے توروزہ دار کوبھی مقوی اشیاء یعنی کھانے پینے سے منع کردیا گيا ، اوراسے ان اشیاء کے اخراج سے بھی منع کردیا گيا جس کے خارج ہونے سے کمزوری لاحق ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔
اورخارج ہونے والی اشیاء کی دوقسمیں ہیں :
ایک قسم توایسی ہے جس کے خروج سے بچنے کی قدرت ہی نہیں اوریا پھروہ نقصان نہیں دیتی تواس سے منع نہيں کياگيا ، مثلادوگندی چيزیعنی بول وبراز ، کیونکہ اس کے خروج سے اسےکوئي ضرر اورنقصان نہيں ، اورنہ ہی اس سے بچا جاسکتا ہے ، اگراس کے خروج کی ضرورت ہو تواس میں کوئي نقصان نہيں بلکہ اس کے خروج میں ہی فائدہ ہے ۔
اوراسی طرح اگر کسی کوخودبخود قییء آجائے تواس سے بچنا مشکل ہے ، اوراسی طرح نیند کی حالت میں احتلام سے بھی بچنا ممکن نہيں ہے ، لیکن اگر قيیء عمدا اورجان بوجھ کرکرے کیونکہ قیيء ایسا مادے کو خارج کرتی ہے جس سے غذا حاصل ہوتی ہے جوکھانا پینا ہے ۔۔۔
اوراسی طرح مشت زنی جس میں شھوت شامل ہوتی ہے ۔۔۔ اورحیض میں آنے والے خون میں خون کا اخراج ہے ، اور پھر حائضہ عورت کے لیے ممکن ہے کہ وہ حیض کے علاوہ کسی اوروقت جب اسے خون نہ آتا ہو توروزہ رکھ لے کیونکہ ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا اعتدال پسندی ہوگي کیونکہ اس حالت میں خون نہيں نکلتا جوبدن کوقوت دینے والا مادہ ہے ۔
اورحالت حیض میں روزہ رکھنے میں کہ اس کا خون خارج ہوتا ہے جوبدن کوتقویت دینے کا باعث ہے ، جس کے اخراج سے بدن کو نقصان اورکمزوری ہوتی ہے جس کی وجہ سے روزہ اعتدال کی حالت سے نکل ہوجائے گا لھذا عورت کویہ حکم دیا گیا کہ وہ حالت حیض کےعلاوہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھے ۔ اھـ مختصر
دیکھیں : مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ( 25 / 234 ) ۔
واللہ اعلم .