سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

صرف ليلۃ القدر ميں ہى تھجد كى ادائيگى كا حكم

سوال

صرف ليلۃ القدر ميں تھجد كى ادائيگى كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ليلۃ القدر ميں عبادت كرنے كى بہت زيادہ فضليت وارد ہے، ہمارے رب تبارك و تعالى نے بيان كيا ہے كہ اس رات كى عبادت ايك ہزار مہينوں سے افضل ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا ہے كہ: جس نے ايمان اور اجروثواب كى نيت سے ليلۃ القدر كا قيام كيا اس كے پہلے تمام گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں.

فرمان بارى تعالى ہے:

يقينا ہم نے اس ( قرآن ) كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے، اور آپ كو كيا معلوم كہ ليلۃ القدر كيا ہے، ليلۃ القدر ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اس ميں فرشتے اور روح ( جبريل عليہ السلام ) اپنے رب كے حكم سے ہر سلامتى كا امر لے كر نازل ہوتے ہيں، يہ طلوع فجر تك ہے القدر ( 1 - 5 ).

ابو ھريرہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے ايمان اور اجروثواب كى نيت سے ليلۃ القدر كا قيام كيا اس كے پچھلے سب گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1901 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).

ايمانا: يعنى اس كى فضيلت اور مشروعيت پر ايمان ركھتے ہوئے.

واحتسابا: اللہ تعالى كے ليے خالص نيت كر كے.

دوم:

علماء كرام نے ليلۃ القدر كى تحديد ميں اختلاف كيا ہے اور اس ميں بہت سے قول ہے، حتى كہ اقوال كى تعداد چاليس تك پہنچ جاتى ہے، جيسا كہ فتح البارى ميں ہے، اور ان اقوال ميں سے اقرب الى الصواب قول يہ ہے كہ يہ رمضان المبارك كے آخرى عشرہ كى تاك راتوں ميں ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ليلۃ القدر رمضان المبارك كے آخرى عشرہ كى تاك راتوں ميں تلاش كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2017 ) مندرجہ بالا الفاظ بخارى كے ہيں، صحيح مسلم حديث نمبر ( 1169 ).

اس حديث پر امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے يہ باب باندھا ہے: آخرى عشرہ كى تاك راتوں ميں ليلۃ القدر تلاش كرنے كا باب"

اس رات كو مخفى ركھنے كى حكمت يہ ہے كہ مسلمان شخص نشيط اور چست رہے تا كہ وہ پورى آخرى عشرہ كى عبادت كرنے كى جدوجھد كرے، اور جمعہ كے دن دعاء كى قبوليت كے وقت كى عدم تحديد كى حكمت بھى يہى ہے اور اسى طرح اللہ تعالى كے ناموں كو ننانوے ناموں كى عدم تحديد كى حكمت بھى يہى ہے، جس كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" جس نے انہيں شمار كر ليا وہ جنت ميں داخل ہو گيا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2736 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2677 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ان كا ـ يعنى امام بخارى ـ يہ كہنا كہ: آخرى عشرہ كى تاك راتوں ميں ليلۃ القدر كو تلاش كرنے كا باب "

اس عنوان ميں يہ اشارہ ہے كہ راجح يہى ہے كہ ليلۃ القدر رمضان المبارك ميں منحصر ہے، اور پھر وہ بھى رمضان كے آخرى عشرہ ميں، اور خاص كر آخرى عشرہ كى تاك راتوں ميں، اس كى كسى معين رات ميں نہيں، مجموعى طور پر احاديث بھى اسى پر دلالت كرتى ہيں.

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 260 ).

اور دوسرى جگہ پر حافظ رحمہ اللہ لكھتے ہيں:

علماء رحمہم اللہ كا كہنا ہے: ليلۃ القدر كو مخفى ركھنے كى حكمت يہ ہے كہ: تا كہ اسے حاصل كرنے كى كوشش اور جدوجھد كى جائے، بخلاف اس كے اگر يہ رات معين كر دى جاتى تو لوگ اس پر ہى اقتصار كرتے، جيسا كہ جمعہ كے دن قبوليت كے وقت كو مخفى ركھا گيا ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 266 ).

سوم:

اور اس بنا پر كسى ايك كے ليے بھى يہ ممكن نہيں كہ وہ يقينى اور بالجزم كسى رات كو ليلۃ القدر قرار دے، اور خاص كر جب ہميں يہ معلوم ہو چكا ہے كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كو اس كے متعلق خبر دينا چاہى تو پھر بتايا كہ اللہ تعالى نے اس كا علم اٹھا ليا ہے.

عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں كو ليلۃ القدر كا بتانے كے ليے نكلے تو مسلمانوں ميں سے دو اشخاص كو جھگڑتے ہوئے پايا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" ميں تمہيں ليلۃ القدر كا بتانے نكلا تھا، اور فلاں فلاں شخص جھگڑا كر رہے تھے تو يہ اٹھا لى گئى، اور ہو سكتا ہے يہ تمہارے ليے بہتر ہو، اسے تم سات، نو، اور پانچ ميں تلاش كرو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 49 ).

تلاحى: يعنى تنازع اور جھگڑا كر رہے تھے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

رمضان المبارك كى كسى رات كى تخصيص كرنا كہ وہ ليلۃ القدر ہے، اس كے ليے كسى دليل كى ضرورت ہے جو دوسرى راتوں سے اس كى تعيين كرتى ہو، ليكن آخرى عشرہ كى تاك راتوں ميں اس كے زيادہ چانس ہيں اور ستائيسويں رات ليلۃ القدر كے حق ميں زيادہ ہے، جو كچھ ہم نے ذكر كيا ہے اس كا احاديث ميں ذكر آيا ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 413 ).

اس ليے مسلمان كے لائق نہيں كہ وہ كسى معين رات كو ليلۃ القدر قرار دے لے كيونكہ ايسا كرنے ميں ايسى چيز كو قطعى اور لازم كرنا ہے جسے لازم كرنا ممكن نہيں؛ اور پھر اس ميں اپنے آپ سے خير وبھلائى بھى فوت ہو جاتى ہے، ہو سكتا ليلۃ القدر اكيسويں، يا تئيسويں، يا انتيسويں رات ہو، اور اگر اس نے صرف ستائيسويں رات كا قيام كيا تو اس سے بہت سارى خير و بھلائى ضائع ہو گئى، اور اسے يہ بابركت رات نہ مل سكى.

اس ليے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ سارا رمضان ہى اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى كوشش اور جدوجھد كرے، اور خاص كر آخرى عشرہ ميں اور بھى زيادہ اہتمام كرے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ بھى يہى تھا.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

جب آخرى عشرہ شروع ہو جاتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كمر كس ليتے اور اور رات كو بيدار ہوتے، اور اپنے اہل و عيال كو بيدار كرتے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2024 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1174 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب