الحمد للہ.
1- علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق سورہ فاتحہ کی تلاوت نماز کا رکن ہے، اور سورہ فاتحہ کی تلاوت امام، مقتدی، اور منفرد سب پر واجب ہے۔
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص نماز پڑھتے ہوئے ام القرآن[سورہ فاتحہ کا نام] نہ پڑھے تو اسکی نماز ناقص ہے-آپ نے یہ بات تین بار فرمائی –ناقص ہے مکمل نہیں ہے)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں[تو کیا کریں؟] تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اپنے دل میں سورہ فاتحہ پڑھو"؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے ، چنانچہ جب بندہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری حمد بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی -راوی کہتا ہے کہ(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ) ایک بار یہ بھی کہا:" میرے بندے نے سب معاملے میرے سپرد کر دیے"-، اور جس وقت بندہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے، اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو یہ مانگے گا"، پھر جب بندہ کہتا ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 8* صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ میرے بندے کی [فریاد ]ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا)مسلم: (395)
خداج کے معنی ناتمام کے ہیں اور نمازی کیلئے عربی زبان میں صحیح انداز سے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے؛ کیونکہ ہمیں قرآن مجید ایسے ہی پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نازل ہوا ہے۔
2- جس کیلئے زبان میں کسی مسئلہ کی وجہ سے یا عجمی ہونے کی وجہ سے صحیح تلفظ ادا کرنا مشکل ہو تو ایسا شخص اپنی استطاعت کے مطابق عربی زبان سیکھے، اور تلفظ درست کرے۔
اور جو شخص ایسا کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو اس سے یہ عمل ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ کسی کام کا حکم نہیں دیتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بناتا[البقرة : 286]
3- اور جو شخص بالکل سورہ فاتحہ نہیں پڑھ سکتا، یا سیکھنا اس کیلئے مشکل ہے، یا پھر ابھی اسلام قبول کیا اور نماز کا وقت ہوگیا ، اور اتنا وقت نہیں ہے کہ سورہ فاتحہ سیکھ لے، تو ایسے شخص کیلئے وضاحت حدیث کی روشنی میں درج ذیل ہے:
عبد اللہ بن ابو اوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو، کیونکہ مجھے پڑھنا نہیں آتا"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) [ترجمہ: اللہ پاک ہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، نیکی کرنے کی طاقت ، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر بالکل نہیں ہے]تو اس پر اس آدمی نے ہاتھ پکڑ کر کہا: "یہ تو سب میرے رب کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي،وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِيْ) [یا اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق عطا فرما، اور عافیت سے نواز]تو اس پر اس شخص نے دوسرے ہاتھ کیساتھ سہارا لیا اور کھڑا ہوکر چل دیا۔
نسائی: (924) ، ابو داود :(832)، اس حدیث کو منذری نے "الترغيب والترهيب" ( 2 /430 ) میں جید کہا ہے، اور "التلخيص الحبير" ( 1/236 ) میں حافظ ابن حجر نے اس کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر قرآن مجید صحیح طرح نہیں پڑھ سکتا ، اور نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے اسے سیکھانا بھی ممکن نہیں ، تو ایسے شخص پر " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ " کہنا لازمی ہے ؛ کیونکہ ابو داود نے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! میں قرآن مجید یاد نہیں کر سکتا، مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو"، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) تو اس پر اس آدمی نے کہا: "یہ تو اللہ کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَاهْدِنِي ، وَعَافِنِيْ)
پہلے پانچ کلمات سے زیادہ پڑھنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی پانچ کلمات پر اکتفا کیا تھا، اور مزید کلمات اسے تب سیکھائے جب اس نے مزید سیکھانے کا مطالبہ کیا" انتہی
اوراگرسورہ فاتحہ کا کچھ حصہ پڑھ سکتا ہو، اور کچھ نہ پڑھ سکے تو جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے، اتنی پڑھنا ضروری ہے، اور جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے اسے اتنی بار دہرائے کہ سورہ فاتحہ کی سات آیات کے برابر ہوجائے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات کا بھی احتمال ہے کہ صرف " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہنا ہی کافی ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اگر تمہیں قرآن یاد ہو تو اسے پڑھ لو، وگرنہ " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " ہی کہہ دو) ابو داود"
" المغنی " ( 1 / 289 ، 290 )
آپ نے سورہ فاتحہ کے کسی حرف میں غلطی پر نماز کے باطل ہوجانے کے بارے میں پڑھا ہے، تو اس کے بارے میں وضاحت یہ ہےکہ سورہ فاتحہ کی ہر غلطی سے نماز باطل نہیں ہوتی، چنانچہ نماز اسی وقت باطل ہوگی جب سورہ فاتحہ کا کوئی لفظ چھوڑ دیا، یا اعراب تبدیل کردیا جس سے معنی بدل جائے، مزید برآں نماز کے باطل ہونے کا حکم ایسے شخص کے بارے میں جو سورہ فاتحہ کی صحیح تلاوت کرسکتا ہو، یا صحیح تلاوت سیکھ سکتا ہو، لیکن پھر بھی وہ نہ سیکھے تو اسکی نماز باطل ہوگی۔
تاہم اپنی تلاوت کو درست کرنے سے عاجز شخص اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے ، چنانچہ کسی غلطی کی صورت میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں دیتا، اور اہل علم کے ہاں یہ اصول مشہور و معروف ہے کہ عاجز شخص سے واجب ساقط ہو جاتا ہے"
دیکھیں: "المغنی": (2/154)
چنانچہ ایسی حالت میں اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے، اورپھر اس کے بعد " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہے تا کہ سورہ فاتحہ کا جو حصہ رہ گیا ہے اسکا عوض ہوجائے۔ دیکھیں: المجموع (3/375)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جو شخص سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے غلطیاں کرے تو کیا اس کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسی غلطی کرنا جس سے معنی تبدیل نہ ہو تو ایسے شخص کی نماز چاہے وہ امام ہویا منفرد درست ہوگی۔۔۔ اور اگر ایسی غلطی ہو جس سے معنی تبدیل ہوجائے، اور غلطی کرنے والے شخص کو غلطی کا علم بھی ہو، مثلاً: صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتُ عَلَيْهِمْ [انعمت کی ت پر پیش پڑھے، اس سے معنی یہ ہوگا کہ: جن پر میں تلاوت کرنے والے نے انعام کیا] اور غلطی کرنے والے شخص کو معلوم ہو کہ [ت پر پیش پڑھنے سے ضمیر متکلم بن جاتی ہے] ، تو ایسی صورت میں اسکی نماز درست نہیں ہوگی، اور اگر غلطی کرنے والے کو علم نہیں ہے کہ اس سے معنی تبدیل ہو رہا ہے، اور اسکا نظریہ یہی ہے کہ "ت" پر زبر کیساتھ ضمیر مخاطب کی ہے، تو ایسے شخص کی نماز کے بارےمیں اختلاف ہے، واللہ اعلم"انتہی
مجموع الفتاوى (22/443)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ جو شخص نماز میں کسی جری حالت [یعنی: زیر]والے حرف کو نصبی حالت [یعنی: زبر] دے دے تو اسکا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی، کیونکہ اس نے نماز کو کھیل تماشا بنا یاہے، اور اگر اسے علم نہیں تھا تو اس بارے حنابلہ کےدو موقف میں سے ایک کے مطابق اس کی نماز باطل نہیں ہوگی" انتہی
مجموع الفتاوى (22/444)
سوال پوچھنے والی مسلمان بہن سےہماری گزارش ہے کہ آپ خوب محنت کریں، اور زیادہ سے زیادہ مشق کریں، بار بار پڑھیں، آپ کسی دوسری مسلمان بہن کو سنائیں جس کی تلاوت درست ہو، اسی طرح آڈیو کیسٹ، اور ریڈیو سے تجوید کیساتھ پڑھنے والے قرائے کرام کی تلاوت سنیں۔
اور آپکو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، آپ اس بات کو دل پر مت لیں، کیونکہ اللہ اپنی مخلوقات سےبخوبی واقف ہے، اللہ تعالی کو علم ہے کہ کون کوشش اور محنت کرتا ہے، اور کون سستی اور کاہلی سے کام لیتا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کے دوران آپکو درپیش مشقت آپکی نیکیوں اور اجر میں اضافے کا باعث ہے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو آدمی قرآن مجید میں ماہر ہو وہ ان فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو معزز اور بزرگی والے ہیں اور جو قرآن مجید اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے) مسلم: (798)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اٹک اٹک کر پڑھنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو کمزور حافظے کے باعث بار بار دہراتا ہے، اس کے لئے دہرا اجر ایسے ہے کہ ایک تو تلاوت کا اجر اور دوسرا بار بار تلاوت ا ور مشقت اٹھانے کا اجر"انتہی
آپ کو ایک سے زائد بار دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ نہیں تھا، بلکہ یہ وسوسوں کیلئے راہ ہموار کرتا ہے، جس سے نماز میں کمی آتی ہے، اور خشوع جاتا رہتا ہے، اور قرآنی آیات کا معنی و مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے، شیطان بھی اس سے خوش ہوتا ہے؛ کیونکہ اس طرح شیطان نماز ی کو تکلیف دیتا رہتا ہے، اور آخر کار وہ شخص نماز سے اکتا جاتا ہے، اللہ تعالی بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، اوروہ ہم پر ہم سے بھی زیادہ رحم رکھتا ہے، اسی لئے ہم پر ایسا کوئی عمل لازم نہیں کرتا جس کی ہم طاقت نہ رکھیں۔
واللہ اعلم.