الحمد للہ.
1 - انسان پر واجب یہ ہے کہ وہ اس کی اتباع کرے جس پر قرآن وسنت سے کوئ دلیل دلالت کرتی ہو چاہے وہ مذھب اور کسی مسلک کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ، لیکن کتاب وسنت کی فہم وہی ہو جوکہ اسلاف کی ہے نہ کہ ہماری اور سلف سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ تعالی ہیں ۔
اور جو مثال آپ نے ذکر کی ہے اس میں صحیح قول یہ ہے کہ : عورت کو چھونے سے مطلق طورپر وضوء نہیں ٹوٹتا چاہے وہ شہوت کے ساتھ یا شہوت کے بغیر ہو ۔
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو چھوا اور بغیر وضوء کۓ نماز کےلۓ چلے گۓ ۔
لیکن اگر شہوت کے سبب سے کوئ چیز نکل آئ تو وہ اس کی بنا پر وضوء کرے گا لیکن چھونے کی وجہ سے نہيں ۔
اوراللہ تعالی کا یہ فرمان : یاتم عورتوں کو چھوؤ تو صحیح قول کے مطابق اس سے مراد جماع ہے ۔
2 – اس بات کی کوئ ضرورت نہیں کہ حج کا فریضہ ادا کرنے میں ایک مذھب سے دوسرے مذھب کی طرف جایا جاۓ ، بلکہ آپ اس طرح حج کریں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( اپنے مناسک کا طریقہ مجھ سے لے لو ) ۔
3 - صرف مصائب کے وقت نماز فجر میں قنوت کرنا صحیح ہے ، یعنی جب مسلمانوں پر کوئ مصیبت نازل ہو تو یہ سنت اور مستحب ہے کہ نماز میں قنوت کی جاۓ تاکہ مسلمانوں سے یہ مصیبت ختم ہو ، لیکن دلائل سے ثابت اورصحیح یہ ہے کہ عام حالا ت میں یہ ثابت نہيں ۔
تو جو نماز فجرمیں قنوت نہیں کرتا اس کی نماز صحیح ہے حتی کہ شافعیہ رحمہم اللہ تعالی کے ہاں بھی اس کی نماز صحیح ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .