اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

صلاۃ رغائب كى بدعت

سوال

كيا نماز رغائب سنت ہے اور اس كى ادائيگى مستحب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رجب كے مہينہ ميں صلاۃ الرغائب كے نام سے موسوم نماز ايجاد كردہ بدعات ميں سے ہے، جو كہ رجب كے پہلے جمعہ كے دن مغرب اور عشاء كے درميان ادا كى جاتى ہے، اور اس سے قبل جمعرات جو كہ رجب كى پہلى جمعرات ہوتى ہے كو روزہ بھى ركھا جاتا ہے.

صلاۃ الرغائب كى بدعت بيت المقدس ميں چار سو اسى ہجرى كے بعد سب سے پہلى بار ايجاد ہوئى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ منقول نہيں كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ادا كيا يا پھر كسى صحابى نے ہى يہ نماز پڑھى، اور قرون ثلاثہ ميں بھى اس كا وجود نہيں ملتا، اور نہ ہى آئمہ مجتھدين سے اس كا ثبوت ملتا ہے، اس كے بدعت ہونے كے ليے يہ كافى ہے اور يہ سنت نہيں.

علماء كرام نے اس سے بچنے كا كہا ہے اور بيان كيا ہے كہ يہ گمراہ كر دينے والى بدعت ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" المجموع " ميں رقمطراز ہيں:

" صلاۃ الرغائب كے نام سے موسوم نماز جو كہ رجب كے پہلے جمعہ كے دن مغرب اور عشاء كے درميان بارہ ركعت ادا كى جاتى ہے، اور شعبان كے نصف يعنى پندرہ تاريخ كو پڑھى جانے والى نماز يہ دونوں قبيح قسم كى بدعات ہيں اور " قوت القلوب" اور " احياء علوم الدين" نامى كتابوں ميں اسے بيان كيے جانے سے كسى كو دھوكہ نہيں كھانا چاہيے، اور نہ ہى كسى حديث ميں ذكر ہونے سے كيونكہ يہ سب باطل ہے، اور نہ ہى ان سے دھوكہ كھايا جائے جن پر اس كا حكم مشتبہ ہے، اور انہوں نے اس كى استحباب ميں كچھ اوراق بھى لكھ ڈالے كيونكہ وہ اس ميں غلطى كھا گئے ہيں.

شيخ امام ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعيل المقدسى رحمہ اللہ نے اس كےابطال ميں ايك بہت ہى نفيس اور عمدہ كتاب تصنيف كى ہے، اور اس ميں اچھى اور قابل تحسين كلام كى ہے. " انتہى

ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 548 ).

اور مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ تعالى اس كے گھڑنے اور ايجاد كرنے والے كو تباہ و برباد كرے، كيونكہ يہ منكرات اور ان بدعات ميں سے جو گمراہى اور جھالت ہيں، اور اس ميں كئى ايك ظاہر منكرات پائى جاتى ہيں، آئمہ كرام كى ايك جماعت نے اس بدعت كى قباحت اور اس نماز كو ادا كرنے والے نمازى اور اسے ايجاد كرنے والے كى گمراہى ميں بہت اچھى اور نفيس تصنيفات تصنيف كي ہيں، اور اس كى قباحت اور بطلان اور اس پر عمل كرنے والے كى گمراہى كے دلائل شمار ہى نہيں كيے جا سكتے" انتہى

اور ابن عابدين رحمہ اللہ تعالى نے " الحاشيۃ" ميں كہا ہے:

" البحر" ميں كہا ہے كہ يہاں سے ماہ رجب كے پہلے جمعہ كو ادا كى جانے والى صلاۃ الرغائب كے نام سے ادا كى جانے والى نماز كى كراہت معلوم ہوتى ہے، اور يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہ نماز بدعت ہے...

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 26 ).

اور اس مسئلہ ميں علامہ نور الدين المقدسى رحمہ اللہ كى " ردع الراغب عن صلاۃ الرغائب " كے نام سے ايك بہترين تصنيف ہے، جس ميں انہوں نے مذاہب اربعہ كے متقدمين اور متاخرين علماء كرام كى غالب كلام كو جمع كيا ہے. انتہى مختصرا

اور ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:

كيا باجماعت صلاۃ الرغائب ادا كرنى جائز ہے يا نہيں ؟

تو ان كا جواب تھا:

" صلاۃ رغائب يہ اسى معروف نماز كى طرح ہے جو نصف شعبان ميں ادا كى جاتى ہے، اور يہ دونوں قبيح اورمذموم قسم كى بدعتيں ہيں، اور اس كے بارہ ميں احاديث موضوع ہيں، لہذا يہ نمازيں باجماعت اور اكيلے ادا كرنا جائز نہيں" انتہى

ديكھيں: الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 1 / 216 ).

اور ابن الحاج المالكى رحمہ اللہ تعالى " المدخل" ميں كہتے ہيں:

" اس ماہ مبارك ( يعنى ماہ رجب ) ميں ايجاد كردہ بدعات ميں يہ بھى ہے كہ اس ماہ كے پہلے جمعہ كى رات كو مسجدوں ميں صلاۃ رغائب كے نام سے نماز ادا كرتے ہيں، اور شھر كى بعض جامع مسجد اور دوسرى مساجد ميں جمع ہو كر اس بدعت كا ارتكاب كرتے ہيں، اور اسے مساجد ميں امام كے ساتھ باجماعت ظاہر كرتے ہيں گويا كہ يہ مشروع نماز ہو.....

اس ميں امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہ ہے كہ صلاۃ رغائب ادا كرنى مكروہ ہے، كيونكہ پہلے گزر جانے والوں كا فعل نہيں، اور خير و بھلائى انہى كى اتباع و پيروى ميں ہے، رضى اللہ تعالى عنہم. انتہى مختصرا.

ديكھيں: المدخل ( 1 / 294 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" كسى مقرر ركعات اور مقدر قرآت كے ساتھ معين وقت ميں باجماعت نماز ادا كرنا جيسا كہ وہ نمازيں جن كا سوال كيا گيا ہے مثلا: رجب كے پہلے جمعہ والے دن صلاۃ رغائب، اور رجب كے شروع ميں الفيہ اور نصف شعبان اور رجب كى ستائيسويں رات كو نماز ادا كرنا، اور اس طرح كى دوسرى نمازيں مسلمان آئمہ كرام كے متفقہ فيصلہ كے مطابق مشروع نہيں ہيں، جيسا كہ معتبر علماء كرام نے بيان بھى كيا ہے، اور اس طرح كى نماز تو بدعتى اور جاہل كے علاوہ كوئى اور ادا نہيں كرتا، اور اس طرح كا دروازہ كھولنا شريعت اسلاميہ ميں تغير و تبدل كرنے كا باعث بنتا اور ايسے لوگوں كى حالت كو اپنانے كا باعث ہے جنہوں نے دين ميں ايسى اشياء مشروع كر لى جن كا حكم اللہ تعالى نے نہيں ديا" انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 239 ).

اور ايك دوسرى جگہ ميں شيخ الاسلام اس كے متعلق كہتے ہيں:

" يہ نماز نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ادا كى ہے اور نہ كسى صحابى نے، اور نہ ہى تابعين اور مسلمانوں كے كسى امام نے بھى ايسا نہيں كيا اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى ترغيب دلائى اور نہ ہى كسى سلف نے، اور آئمہ كرام نے اس رات كو كوئى فضيلت ذكر كى ہے جو اس رات كے ساتھ مخصوص ہو.

اس سلسلے ميں جو حديث مروى ہے وہ محدثين كے ہاں بالاتفاق موضوع اور جھوٹ ہے؛ اسى ليے محققين كا كہنا ہے كہ: يہ مكروہ اور ناجائز ہے، اس كى ادائيگى مستحب نہيں" انتھى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 262 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

" احناف اور شافعى حضرات نے بيان كيا ہے كہ رجب كے پہلے جمعہ والے دن صلاۃ الرغائب يا شعبان كے نصف ميں مخصوص كيفيت يا مخصوص ركعات كے ساتھ نماز ادا كرنى بدعت منكرہ ہے....

اور ابو الفرج بن الجوزى كہتے ہيں: صلاۃ الرغائب نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں يہ موضوع ہے،اور ان كے ذمہ جھوٹ لگايا گيا ہے.

وہ كہتے ہيں: علماء نے اس كا بدعت ہونا اور اس كى كراہت كى كئى ايك وجوہات بيان كي ہيں:

يہ دونوں نمازيں صحابہ كرام اور ان كے بعد تابعين اور آئمہ كرام سے منقول نہيں ہيں.

لہذا اگر يہ مشروع ہوتيں تو سلف حضرات ان كو ضرور ادا كرتے، بلكہ اس كا بيان تو ہميں چار سو سال بعد ملتا ہے" انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 262 ).

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب