جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا ان پر روزے فرض ہيں ؟ اور كيا ان پر قضاء لازم ہے ؟

سوال

بلوغت سے قبل ايك بچہ رمضان كے روزے ركھ رہا ہو اور روزے كى حالت ميں ہى دن كے دوران بالغ ہو جائے تو كيا اس كے ذمہ اس دن كى قضاء لازم ہے، اور اسى طرح اگر كافر اسلام قبول كر لے، اور حائضہ عورت حيض سے پاك ہو جائے، اور اسى طرح اگر مجنون تندرست ہو جائے، اور اسى طرح مسافر واپس پلٹ آئے اور روزہ نہ ركھا ہو، اور اسى طرح مريض شفاياب ہو جائے اوراس نے روزہ نہ ركھا ہو، تو ان افراد كے ذمہ كيا لازم ہے، آيا وہ باقى سارا دن بغير كھائے پيئے بسر كريں يا نہيں، اور آيا وہ اس روز كى قضاء كرينگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال ميں مذكورہ سب افراد كا حكم ايك جيسا نہيں، اس سلسلہ ميں علماء كرام كا اختلاف اور ان كے كچھ اقوال سوال نمبر ( 49008 ) كے جواب ميں ہم بيان كر چكے ہيں اس كا مطالعہ ضرور كريں.

سوال ميں مذكور افراد كو دو گروپ ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے:

چنانچہ جب بچہ بالغ ہو جائے،اور كافر اسلام قبول كر لے، اور مجنون اور پاگل عقل مند ہو جائے تو ان سب كا حكم ايك ہى ہے كہ انہيں باقى سارا دن بغير كھائے پيئے گزارنا ہوگا، اور ان پر قضاء واجب نہيں ہوگى.

ليكن حائضہ عورت اگر پاك صاف ہو جائے، اور جب مسافر واپس پلٹ آئے اور جب مريض شفاياب ہو جائے تو ان كا حكم بھى ايك ہى ہے، ان پر باقى سارا دن بغير كھائے پيئے گزارنا واجب نہيں، اور ان كے ليے بغير كھائے پيئے سارا دن بسر كرنے ميں كوئى فائدہ نہيں، اور ان پر قضاء واجب ہوگى.

پہلے اور دوسرے گروپ ميں فرق يہ ہے كہ: پہلے مجموعہ ميں مكلف ہونے كى شرط بلوغت اور اسلام پائى جاتى ہے، لہذا جب ان كا مكلف ہونا ثابت ہو گيا تو ان كے ليے باقى سارا دن بغيركھائے پيئے گزارنا واجب ٹھرا، اور ان پر قضاء اس ليے واجب نہيں كہ جب ان پر واجب ہوا تو انہوں نے باقى سارا دن بغير كھائے پيئے بسر كيا، ليكن اس وقت سے قبل تو وہ روزہ ركھنے كے مكلف ہى نہ تھے.

اور دوسرا مجموعہ تو روزہ ركھنے كا مخاطب ہے، اس ليے ان پر قضاء واجب ٹھرى، ليكن جب وہ روزہ ركھنے ميں معذور تھے تو ان كے ليے روزہ نہ ركھنا مباح ہے، يعنى حيض، سفر اور بيمارى جيسے عذر كى بنا پر اللہ تعالى نے ان پر تخفيف كرتے ہوئے ان كے ليے روزہ نہ ركھنا مباح قرار ديا، اس ليے ان كے حق ميں اس دن كى حرمت زائل ہو گئى، اور جب دوران دن ہى ان كا عذر ختم ہو گيا تو باقى سارا دن بغير كھائے پيئے بسر كرنے ميں ان كا كوئى فائدہ نہيں ليكن رمضان كے بعد انہيں اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا ہوگا.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جب مسافر اپنے شہر واپس پلٹ آئے اور وہ بغير روزہ سے ہو تو اس پر دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے بسر كرنا واجب نہيں، اس ليے وہ باقى دن كھا پى سكتا ہے؛ كيونكہ اس روز كى قضاء واجب ہونے كى بنا پر اس كے ليے باقى دن بغير كھائے پيئے رہنے كا كوئى فائدہ نہيں، صحيح قول يہى ہے، اور امام مالك اور امام شافعى رحمہما اللہ كا مسلك يہى ہے، اورامام احمد رحمہ اللہ كى ايك روايت بھى يہى ہے، ليكن اسے اعلانيہ طور پر نہيں كھانا پينا چاہيے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 58 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہى كہنا ہے:

" جب حائضہ يا نفاس والى عورت دن كے دوران پاك صاف ہو جائے دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے گزارنا واجب نہيں، بلكہ وہ كھا پى سكتى ہے، كيونكہ دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے بسر كرنا اسے كوئى فائدہ نہيں دےگا اس ليے كہ اس كے ذمہ اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا واجب ہے.

امام مالك اور امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھى ايك روايت ہے، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے:

" جو دن كے اول ميں كھاتا ہے، اسے دن كے آخر ميں كھانے كا حق ہے "

يعنى جس كے ليے دن كى ابتدا ميں روزہ چھوڑنا جائز ہے، اس كے ليے دن كے آخر ميں بھى روزہ افطار كرنا جائز ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 59 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جو شخص رمضان ميں دن كے وقت كسى شرعى عذر كى بنا پر روزہ كھول دے تو كيا اس كے ليے دن كا باقى حصہ كھانا پينا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس كے ليے كھانا پينا جائز ہے؛ كيونكہ اس نے شرعى عذر كى بنا پر روزہ كھولا ہے، اور جب اس نے كسى شرعى عذر كى بنا پر روزہ كھول ديا تو اس كے حق ميں اس دن كى حرمت زائل ہوگئى، تو وہ اس دن ميں كھا پى سكتا ہے، بخلاف اس شخص كے جس نے بغير كسى شرعى عذر رمضان ميں دن كے وقت روزہ كھول ديا تو ہم اسے دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے گزارنا لازم قرار دينگے، اگرچہ اس پر قضاء بھى واجب ہے، اس ليے ان دونوں مسئلوں ميں فرق پر متنبہ رہنا چاہيے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 60 ).

شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" روزوں كى بحث ميں ہم يہ بيان كر چكے ہيں كہ جب عورت حائضہ ہو اور دن كے دوران حيض سے پاك صاف ہو جائے تو اس كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا اس عورت پر دن كا باقى مانندہ حصہ بغير كھائے پيئے رہنا لازم ہے يا اس كے ليے كھانا پينا جائز ہے ؟

ہم كہتے ہيں: اس ميں امام احمد رحمہ اللہ سے دو روايتيں ہيں، ايك يہ ہے كہ اور مشہور بھى يہى ہے: اس كے ليے بغير كھائے پيئے دن گزارنا لازم ہے چنانچہ وہ كھاپى نہيں سكتى.

دوسرى روايت يہ ہے كہ: دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے گزارنا ضرورى نہيں، اس ليے اس كے ليے كھانا پينا جائز ہے.

ہم كہتے ہيں: يہ دوسرى روايت امام مالك اور امام شافعى رحمہما اللہ كا مسلك ہے، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى مروى ہے كہ:

" جو دن كى ابتدا ميں كھائے وہ دن كے آخر ميں بھى كھا سكتا ہے"

ہم كہتے ہيں:

اختلافى مسائل ميں طالب علم پر واجب ہے كہ وہ دلائل كو مدنظر ركھے اور اسے جو راجح معلوم ہو اس پر عمل كرے، اور جب اس كے پاس دليل موجود ہو تو وہ كسى كے اختلاف كى پرواہ مت كرے؛ كيونكہ ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كا حكم ہے اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جس دن انہيں بلا كر كہا جائيگا تم نے رسولوں كو كيا جواب ديا تھا .

اور جس حديث سے استدلال كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دن كے دوران عاشوراء كا روزہ ركھنے كا حكم ديا تو لوگوں نے دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے بسر كيا .

ہم كہتے ہيں: اس حديث ميں ان كے ليے كوئى دليل نہيں؛ كيونكہ يوم عاشوراء كے روزہ ميں كوئى زوال مانع نہيں، بلكہ اس ميں تو تجدد وجوب ہے اور زوال مانع اور تجدد وجوب ميں فرق ہے؛ كيونكہ تجدد وجوب كا معنى يہ ہے كہ سبب كے ( وجود ) سے قبل حكم ثابت نہيں تھا، اور زوال مانع كا معنى يہ ہے كہ حكم موجود تھا اگر يہ مانع نہ ہوتا تو حكم پر عمل كرنا پڑتا، جب حكم كے اسباب كى موجودگى ميں يہ مانع پايا جاتا ہے تو اس كا معنى يہ ہوا كہ اس مانع كى موجودگى ميں اس پر عمل كرنا ممكن نہيں.

سائل نے جو مسئلہ بيان كيا ہے وہ بھى اسى طرح كا ہے: اگر كوئى انسان دن كے وقت اسلام قبول كرلے تو اس شخص كے ليے يہ حكم ابھى وجود ميں آيا ہے يعنى اس كے ليے تجدد وجوب ہے، اور اس كى نظير يہ بھى ہے كہ: اگر كوئى بچہ دن كے دوران بالغ ہو جائے اور اس نے روزہ نہ ركھا ہو، تو يہ بھى تجدد وجوب ہے، تو ہم مسلمان ہونے والے شخص كو كہينگے كہ دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے بسر كرے گا، ليكن اس كے ذمہ قضاء واجب نہيں ہوگى.

اور ہم بچے كو كہينگے كہ جب دن كے دوران بالغ ہو تو اس كے ليے بھى دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے بسر كرنا واجب ہے، ليكن قضاء نہيں ہے.

بخلاف حائضہ عورت كے جب وہ پاك صاف ہو تو اہل علم كا اجماع ہے كہ اگر وہ دن كے دوران پاك ہو جائے تو اگر وہ دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے بھى بسر كرے تو اسے كوئى فائدہ نہيں اور اس كا روزہ نہيں ہوگا، بلكہ اس كے ذمہ اس روزہ كى قضاء واجب ہے.

اس طرح تجدد وجوب اور مانع كے زائل ہونے ميں فرق واضح ہو جاتا ہے چنانچہ جب حائضہ عورت دن كے دوران پاك صاف ہو جائے تو يہ مانع زائل ہونے اور بچے كا دن كے دوران بالغ ہونا يا جو سائل نے ذكر كيا كہ عاشوراء كا روزہ رمضان كے روزے فرض ہونے سے قبل واجب ہونا تجدد وجوب كے مسئلہ ميں شامل ہوتا ہے.

اللہ ہى توفيق بخشنےوالا ہے. انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 60 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب