سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

چار رمضان سے روزہ ركھنے كى ابتدا كرنا

65773

تاریخ اشاعت : 07-09-2007

مشاہدات : 6660

سوال

كيا ميرے ليے چار رمضان سے روزے كى ابتدا كرنى جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان المبارك كے روزے ركھنا ہر عاقل بالغ اور مقيم صاحب استطاعت پر روزہ ركھنا فرض ہے، چنانچہ ايسے شخص كے ليے بغير كسى شرعى عذر كے روزہ نہ ركھنا حرام ہے، كيونكہ روزہ نہ ركھنے ميں اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى صريخا خلاف ورزى، اور ماہ رمضان كى حرمت پامل كرنا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تم پر روزے فرض كيے گئے ہيں، جس طرح كہ تم سے پہلے لوگوں پر روزے ركھنا فرض كيے گئے تھے تا كہ تم مقتى اور پرہيز گار بن جاؤ البقرۃ ( 183 ).

اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:

چنانچہ تم ميں سے جو كوئى بھى حاضر ہو اور وہ اس مہينہ كو پائے تو اسے روزہ ركھنا چاہيے، اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).

چنانچہ جب ماہ رمضان كا چاند نظر آ جائے، يا پھر شعبان كے تيس روز پورے ہوجائيں تو روزہ ركھنا لازم ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ہے، يہ گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور حج كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).

اگر تو آپ كا سوال بغير كسى عذر كے چار رمضان المبارك كو روزہ ركھنے كى ابتدا كے متعلق ہے تو آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ ايسا كرنا حرام اور ناجائز ہے، بلكہ يہ كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے.

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 38747 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور اگر كسى عذر مثلا بيمارى يا سفر كى بنا پر تاخير ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، جيسے ہى عذر ختم ہو فورى طور پر روزہ ركھنا فرض ہوگا چاہے چوتھے روز ختم ہو يا بعد ميں، اور نہ ركھے گئے روزوں كى قضاء كرنا ہو گى؛ كيونكہ اوپر فرمان بارى بيان ہو چكا ہے:

اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).

يعنى جب مريض يا مسافر روزہ نہ ركھے تو رمضان المبارك ختم ہونے كے بعد ان روزوں كى قضاء ميں روزہ ركھنا ہونگے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب