جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

صبح سفر كرنا تھا اس ليے روزہ نہ ركھنے كى نيت كى ليكن پھر سفر نہ كيا

سوال

انسان سفر كرنے كے عزم كى بنا پر صبح روزہ نہ ركھنے كى نيت كرے اور فجر كے بعد كچھ كھانے پينے سے قبل سفر نہ كرنے كا فيصلہ كرے تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كتاب و سنت اور اجماع اس پر دلالت كرتا ہے كہ مسافر كے ليے رمضان المبارك ميں روزہ ترك كر سكتا ہے، پھر ان ايام كى بعد ميں قضاء كرے گا جس كے روزے نہ ركھے ہوں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے دنوں ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).

اور جو شخص اپنے شہر ميں ہى ہو اور سفر كا عزم كرے تو اسے اس وقت تك مسافر نہيں كہا جائے گا جب تك وہ اپنے شہر كى عمارتوں سے دور نہيں چلا جاتا، لہذا اس كے ليے صرف سفر كى نيت كى بنا پر سفر كى رخصت مثلا روزہ نہ ركھنا، نماز قصر كرنا حلال نہيں ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تو مسافر كے ليے روزہ نہ ركھنا مباح كيا ہے، اور وہ اس وقت تك مسافر نہيں جب تك اپنا علاقہ اور شہر يا بستى نہيں چھوڑتا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں دن كے وقت سفر كرنے والے مسافر كو روزہ چھوڑنے كا حق ہے ذكر كرنے كے بعد رقمطراز ہيں:

" جب يہ ثابت ہو گيا ؛ تو اس كے ليے اس وقت تك روزہ چھوڑنا مباح نہيں جب تك كہ وہ آبادى كو اپنے پيچھے نہ چھوڑ دے، يعنى وہ وہاں سے نكل جائے اور آبادى كو تجاوز كر جائے.

حسن رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اگر وہ چاہے تو جس دن سفر كرنا چاہتا ہے اپنے گھر ميں ہى روزہ چھوڑ سكتا ہے.

اور عطاء رحمہ اللہ تعالى سے بھى ايسا ہى مروى ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: حسن رحمہ اللہ تعالى كا قول شاذ ہے، اور كسى ايك كو بھى حضر كى حالت ميں روزہ چھوڑنے كا حق حاصل نہيں، نہ تو اس كى اثر ميں دليل ملتى ہے اور نہ ہى نظر ميں، اورحسن رحمہ اللہ تعالى سے اس كے خلاف بھى مروى ہے.

پھر ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ وتعالى كا قول:

جو كوئى بھى اس ماہ مبارك كو پالے وہ اس كے روزے ركھے البقرۃ ( 185 ).

اور يہ شاہد ( يعنى حاضر اور مقيم ہے اس نے سفر نہيں كيا ) ہے اور اسے اس وقت تك مسافر نہيں كہا جاسكتا جب تك كہ وہ اپنے شہر اور بستى سے نكل نہ جائے، اور جب تك وہ شہر اور بستى ميں ہے اسے مقيم اور حاضرين كے احكام مليں گے، اور اسى ليے وہ نماز بھى قصر نہيں كرتا" انتہى

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 4 / 347 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

سوال: ؟

ايك شخص نے سفر كى نيت كى اور جہالت كى بنا پر گھر ميں ہى روزہ چھوڑ ديا، تو كيا اس پر كفارہ لازم آتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" گھر ميں ہى اس كے ليے روزہ چھوڑنا حرام ہے، ليكن اگر اس نے سفر پر نكلنے سے قبل گھر ميں ہى روزہ چھوڑ ديا تو اس پر صرف قضاء لازم آتى ہے" انتہى

ديكھيں: فتاوى الصيام صفحہ ( 133 ).

اور الشرح الممتع ميں كچھ اس طرح كہتے ہيں:

" سنت نبويہ اور صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كے آثار ميں ہے كہ جب وہ دن كے دوران سفر كرے تو اسے روزہ چھوڑنے كا حق حاصل ہے، ليكن كيا اس كے ليے بستى چھوڑنا شرط ہے ؟ يا كہ جب وہ سفر كا عزم كرے اور سفر كے ليے چل نكلے تو اسے روزہ چھوڑنے كا حق حاصل ہے؟

جواب:

سلف رحمہ اللہ سے اس ميں دو قول ہيں:

بعض اہل علم كہتے ہيں كہ جب وہ سفر كى تيارى كر لے اور صرف سوارى پر سوار ہونا باقى ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا جائز ہے، اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ ايسا كيا كرتے تھے.

اورجب آپ آيت پر غور كرينگے تو آپ پائيں گے كہ يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ وہ شخص تو ابھى تك مسافر نہيں، بلكہ ابھى تك مقيم اور حاضر ہے تو اس بنا پر اس كے رزوہ چھوڑنا جائز نہيں، ليكن جب وہ آبادى اور گھروں كو چھوڑ دے تو جائز ہے....

لہذا صحيح يہى ہے كہ وہ بستى سے نكلنےاور اسے چھوڑنے سے قبل روزہ نہ چھوڑے، اور اس ليے اس كے ليے شہر اور بستى سے نكلنے كى بنا پر نماز قصر كرنا بھى جائز نہيں " انتہى كچھ كمى وبيشى كے ساتھ

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 218 ).

تو اس بنا پر جس شخص نے رات كے وقت سفر كا عزم كيا تو اس كے ليے صبح روزہ چھوڑنا جائز نہيں، بلكہ اسے رات كے وقت لازمى روزے كى نيت كرنا ہو گى، اور اگر صبح وہ سفر كرے تو اس كے ليے بستى اور شہر چھوڑنے كے بعد روزہ چھوڑنا جائز ہے.

حاصل يہ ہوا كہ:

جس شخص نے رات كے وقت ہى اس دليل كے ساتھ روزہ نہ ركھنے كى نيت كى كہ صبح اس نے سفر كرنا ہے، اس نے غلطى كى، اسے اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا ہو گا، حتى كہ فرض كريں اگر اس نے سفر نہ كيا؛ تو بھى كيونكہ اس نے رات كو روزے كى نيت نہيں كى تھى.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے رات كو فجر سے پہلے پہلے روزے كى نيت نہ كى تو اس كا روزہ نہيں ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2454 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 730 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور سفر نہ كرنے كى حالت ميں اس پر لازم ہے كہ وہ رمضان المبارك كا احترام كرتے ہوئے باقى سارا دن كھانے پينے اور روزہ توڑنے والى دوسرى اشياء سے اجتناب كرے، كيونكہ اس نے كسى شرعى عذر كے بغير روزہ چھوڑا ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 209 ).

لہذا سائل كو اپنے كيے پر اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اس دن كى قضاء ميں ايك روزہ ركھنا چاہيے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب