الحمد للہ.
اول:
لوگوں كے مابين جو كيلنڈر اور جنترياں منتشر ہيں ان پر دو شرطوں كے بغير عمل اور اعتماد كرنا جائز نہيں:
پہلى شرط:
اسے جارى كرنے والے اہل علم اور تجربہ كار لوگ ہوں.
دوسرى شرط:
وہ كيلنڈر اس علاقے كے ساتھ خاص ہو جہاں سے يہ جارى ہوا ہے، اور اس علاقے سے دور بسنے والے شخص كے ليے اس كيلنڈر اور جنترى پر عمل كرنا جائز نہيں، كيونكہ ان دونوں علاقوں كے نظام الاوقات ميں فرق ہوتا ہے.
اور جس شخص كے پاس يہ كيلنڈر، جنترى يا نظام الاوقات موجود نہ ہو جس پر وہ سحرى اور افطارى كے ليے اعتماد كرے، تو اس كے ليے ممكن ہے كہ وہ طلوع فجر اور غروب آفتاب كا مشاہدہ كر كے تحقيق كرے، يا پھر كسى امانتدار مؤذن پر اعتماد كرے جو اوقات كا علم ركھتا ہو.
چنانچہ جب علم ہو كہ مؤذن طلوع فجر صادق ہونے پر اذان كہتا ہے تو اذان سنتے ہى فورى كھانے پينے سے رك جانا چاہيے، اور اگر اس كے متعلق علم ہو كہ وہ غروب آفتاب كے بعد اذان ديتا ہے تو روزہ افطار كرنا حلال ہو گا طلوع فجر يا غروب آفتاب سے كچھ مدت بعد اذان دينے والے كا اعتبار نہيں كيا جائيگا.
دوم:
سوال نمبر ( 8048 ) كے جواب ميں شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كى كلام بيان ہو چكى ہے كہ:
" يہ جنترى و كيلنڈر اور نظام الاوقات لوگوں كے ليے گھنٹو اور منٹوں كے حساب سے نمازوں كے اوقات معلوم كرنے كا ايك وسيلہ بن چكے ہيں، چنانچہ اس كا خيال كرنا چاہيے "
ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ اس وضع كردہ نظام الاوقات ميں كوئى غلطى نہيں ہو سكتى، سوال نمبر ( 26763 ) كے جواب ميں شيخ علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كى بعض كيلنڈروں اور نظام الاوقات ميں غلطيوں كے متعلق كلام بيان ہو چكى ہے، يہ شيخ رحمہ اللہ تعالى كى كوشش و بيسار ہے.
اور يہ معلوم ہى ہے كہ " ام القرى " كيلنڈر اور نظام الاوقات ايك بلند مصداقيت ركھتا ہے، چنانچہ سعودى عرب كے مفتى عام اور كبار علماء كميٹى اور مستقل فتوى اور بحث علمى كميٹى كے چئرمين شيخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ حفظہ اللہ تعالى نے ـ ايك خطبہ جمعہ ميں ـ يہ بات كہى ہے كہ:
ام القرى كيلنڈر اور نظام الاوقات ايك دقيق اور شرعى نظام الاوقات ہے اس ميں شك كرنا ممكن نہيں "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
امت كے علماء كرام نے اس نظام الاوقات اور كيلنڈر كى توثيق كى ہے اور تجربہ بھى ہوا اور اس كى تطبيق بھى كى گئى جس سے يہ ثابت ہوا كہ يہ شرعى اوقات كے مطابق ہے.
اور شيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ تعالى نے 1418 ھـجرى ميں ايك بيان جارى كيا تھا جس ميں ام القرى كلينڈر كى توثيق كى گئى تھى" انتہى
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ اس ميں فجر كے اوقات كا بسيط فرق يعنى تقريبا پانچ منٹ كا فرق پايا جاتا ہے، آپ يہ بيان سوال نمبر ( 66202 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
سوم:
القنفذہ شہر كے متعلق يہ ہے كہ: يہ علاقہ بحر احمر كے ساحل پر واقع ہے جو مكہ اور جدہ كے متوسط شمالى اور جازان كے جنوبى طرف مكہ اور جدہ سے ( 380 ) كيلو ميٹر جنوب ميں واقع ہے، اور خط طول بلد پر ( 5 . 41 ) مشرق اور عرض بلد ( 8 . 19 ) ڈگرى پر شمال ميں واقع ہے.
ليكن مكہ مكرمہ خط عرض ( 27 . 21 ) پر شمال اور طول ( 49 . 39 ) مشرق ميں واقع ہے.
اور نمازوں كے اوقات ميں ام القرى نظام الاوقات كے حساب سے غور و فكر كرنے سے ہميں يہ پتہ چلتا ہے كہ مكہ اور قنفذہ كے درميان مسافت كى بنا پر ان علاقوں كے اوقات ميں فرق ہے، چنانچہ قنفذہ والوں كے ليے ام القرى تقويم پر اعتماد كرنا صحيح نہيں.
چنانچہ اس دن يعنى: مثلا: 30 رجب 1426 ہجرى نمازوں كے اوقات درج ذيل ہيں:
مكہ مكرمہ:
فجر: چار بجكر چواليس منٹ. ( 44 . 4 )
طلوع آفتاب: چھ بجكر چار منٹ ( 4 . 6 )
ظہر بارہ بجكر انيس منٹ ( 19 . 12 )
عصر تين بجكر چواليس منٹ ( 44 . 3 )
مغرب چھ بجكر چونتيس منٹ ( 34 . 6 )
عشاء آٹھ بجكر چار منٹ ( 4 . 8 ).
القنفذہ كى نمازوں كا وقت:
فجر: چار بجكر چونتيس منٹ. ( 34 . 4 )
طلوع آفتاب: چھ بجكر ايك منٹ ( 1 . 6 )
ظہر بارہ بجكر پندرہ منٹ ( 15 . 12 )
عصر تين بجكر سينتيس منٹ ( 37 . 3 )
مغرب چھ بجكر اٹھائيس منٹ ( 28 . 6 )
عشاء سات بجكر اٹھاون منٹ ( 58 . 7 ).
تو اس طرح يہ معلوم ہوا كہ اسلامك سينٹر مكتب جاليات والوں نے جو نظام الاوقات آپ كے ليے تقسيم كيا ہے وہ صحيح ہے، جو آپ كے علاقے كے ساتھ مختص ہے.
اور آپ نے اوقات ميں جو فرق بيان كيا ہے وہ واقعتا بالفعل موجود ہے اس ليے آپ اوقات ميں اس فرق كو مد نظر ركھيں اور اس كا لحاظ كرتے ہوئے اپنى نمازيں اور روزے كى ادائيگى كريں.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو توفيق نصيب كرے اور اپنى رضا كے كام كرنے كى راہنمائى دے.
واللہ اعلم .