الحمد للہ.
اول:
عقد نكاح ميں مہر واجب ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے صداق اور اجرت كا نام ديا ہے جيسا كہ اس فرمان بارى تعالى ہے:
اور ان عورتوں كے علاوہ اور عورتيں تمہارے ليے حلال كى گئيں ہيں كہ اپنے مال كے مہر سے تم ان سے نكاح كرنا چاہو برے كام سے بچنے كے ليے نہ كہ شہوت رانى كے ليے اس ليے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہيں ان كا مقرر كيا ہوا مہر دے دو النساء ( 24 ).
اور مہر كى تحديد كرنا مسنون ہے، اور اگر اس كى تحديد نہ كى گئى ہو تو نكاح صحيح ہے، ليكن بيوى كو اس جيسى عورتوں كے مثل مہر ديا جائيگا جو اس كى صفات ميں برابر ہوں ليكن مہر ميں اختلاف ہو.
دوم:
مہر معلوم ہونا ضرورى ہے كہ كتنا ہے، اگر وہ مجہول مہر پر متفق ہو جائيں تو يہ صحيح نہيں بلكہ اس صورت ميں بيوى كو مہر مثل ديا جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مہر معلوم ہونے كے علاوہ جائز نہيں امام شافعى كا مسلك يہى ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 7 / 167 ).
اور معونۃ اولى النھى ميں درج ہے:
" مہر معلوم ہونا شرط ہے: يعنى اس كا علم ہونا چاہيے كہ كتنا ہے "
پھر كہتے ہيں: اور اسى طرح ہر اس كا جس كى مقدار مجہول ہو يا اس كا حصول مجہول ہو تو بغير كسى اختلاف كے اس كا مہر ہونا صحيح نہيں " انتہى
ديكھيں: معونۃ اولى النھى ( 9 / 192 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر عورت كو كوئى مجہول چيز مہر دى تو يہ جائز نہيں اور اسے مہر مثل ديا جائيگا " انتہى مختصرا
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 302 ).
سوال ميں جو وارد ہے كہ چچا نے مہر متعين كرنے سے انكار كر ديا اور كہا كہ بھائى كے بيٹے اور اپنے بيٹے كى شاديوں كے اخراجات جمع كر كے دونوں ميں تقسيم كر ديے جائيں جو مجہول مہر بن رہا ہے، كيونكہ پتہ نہيں اس كا بيٹا شادى پر كتنا خرچ كرے گا.
اس بنا پر اس بيوى كے ليے اس جيسى عورتوں جتنا مہر دينا واجب ہو گا، اس صورت ميں كہ اگر تو عقد نكاح اس طرح ہوا ہے جس طرح آپ نے بيان كيا ہے.
اور اگر عقد نكاح نہيں ہوا، تو مہر كى تحديد اور معلوم ہونا ضرورى ہے، اور جو كچھ آپ كے چچا نے طلب كيا اس پر عمل كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ مہر مجہول ہونے پر دلالت كرتا ہے.
واللہ اعلم .