ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

كيا يہ شادى كر لے يا نہ كرے

69854

تاریخ اشاعت : 06-09-2011

مشاہدات : 4731

سوال

ميں ايك اچھے دل كى مسلمان لڑكى ہوں اور اپنے سب معاملات ميں مستقيم ہوں، تقدير نے چاہا كہ ميرى اپنے چچا كے بيٹے سے منگنى ہو گئى ميں اسے پہلے نہيں جانتى تھى كيونكہ وہ امريكہ ميں رہتا ہے ميرا اس سے بہت ہى كم تعارف تھا جب وہ وطن آيا اور پھر چلا گيا.
ہمارے درميان لكھائى ہوئى كہ اور طے پايا كہ آٹھ ماہ كے بعد شادى ہوگى تا كہ ميں اپنى تعليم مكمل كر لوں، ليكن جب وہ امريكہ چلا گيا اور ہمارا ايك دوسرے سے رابطہ ہوا تو بہت سارے معاملات ميں ہمارا اختلاف ہونے لگا، اور ايك دوسرے ناراض ہونے لگے.
جب بھى رابطہ ہوتا آخر ميں ہمارا تنگى پر ہى رابطہ ختم ہوتا حتى كہ جس شخص كو ميں پہلے جانتى تھى مجھے وہ نہ لگا، اور ہر چيز بالكل الٹ گئى، اور ہم نے ايك دوسرے سے عليحدہ ہونے كا سوچ ليا، اگر رشتہ دار دخل اندازى نہ كرتے تو ہم عليحدہ ہو جاتے، اور طلاق ہو جاتى.
ليكن اب تعلقات پہلے جيسے نہيں رہے اور ميں اپنے اس معاملہ ميں پريشان ہوں كہ آيا اس شادى كو مكمل كروں يا كہ معاملہ يہيں ختم كر ديا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر آپ كے چچا كا بيٹا نماز كى پابندى كرتا اور اخلاقى طور پر اچھا ہے اور دين پر بھى مستقيم ہے تو پھر آپ اس سے عليحدگى طلب كرنے ميں جلد بازى سے كام نہ ليں، كيونكہ بہت سارے جزئى اختلافات ايسے ہيں جن كا حل ممكن اور ان كے بارہ ميں سمجھوتا كيا جا سكتا ہے، اور اس كے ليے كچھ وقت دركار ہوتا ہے تا كہ ايك دوسرے سے انس و محبت ہو جائے اور الفت پيدا ہونے پر يہ سب كچھ ختم ہو جاتا ہے.

ليكن اہم معاملہ يہ ہے كہ وہ شخص اپنے اللہ عزوجل سے تعلق قائم ركھنے والا اور اپنے دين كا التزام كرتا ہو، كيونكہ دين والا شخص اپنے گھر والوں كو اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى پر تيار كرتا اور اس ميں ممد و معاون ہوتا ہے، اور انہيں اللہ سبحانہ و تعالى كى رضا وخوشنودى كے قريب كرتا ہے، اور غالبا اس سے امن ہوتا ہے كيونكہ اس كا دين اور دينى امور كا التزام اسے برا سلوك يا ظلم و ستم كرنے سے باز ركھتا ہے.

خاص كر جب آپ اس كے ساتھ اپنے گھر والوں سے كہيں دور سفر پر جائيں تو وہ اور بھى خيال كرتا ہے، ليكن اگر وہ اپنے دين ميں ہى كوتاہى كرنے والا ہو اور نماز كى پابندى نہ كرتا ہو اور لوگوں ميں غلط راہ پر چلنے والا معروف ہو تو پھر بلاشك و شبہ ايسے شخص سے شادى كرنا خطرناك ہوگا؛ كيونكہ جو اپنے دين كو ضائع كرتا ہے وہ باقى اشياء كو زيادہ ضائع كرنے والا ہوگا، اور جو شخص اپنے خالق و مالك و مولا و پروردگار كے حق ميں كوتاہى كرتا ہے تو دوسروں كے حق ميں كوتاہى كرنا كوئى عجب نہيں ہوگا.

جس شخص كى ايسى برى حالت ہو اسے ابھى سے چھوڑ دينا افضل و بہتر ہوگا كہ بعد ميں اس سے عليحدگى كى جائے جب رخصتى بھى ہو اور پھر اولاد پيدا ہونے كے بعد عليحدگى مشكل ہو جائيگى.

آپ كو اس سلسلہ ميں استخارہ كرنا چاہيے كيونكہ جو اپنے پروردگار سے استخارہ كرتا ہے وہ كبھى خائب و خاسر نہيں ہوتا، اور اس كے ساتھ ساتھ آپ نيك و صالح قسم كے رشتہ داروں سے اس سلسلہ ميں مشورہ بھى كريں جو آپ كے خاوند كى حالت اور اخلاق اور طبعيت كو جاننے والے ہوں.

نماز استخارہ كا طريقہ معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 11981 ) اور ( 2217 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

آپ اپنى جانب سے اپنے آپ كو بہتر اور افضل اخلاق والى بنائيں اور اپنے اندر اچھى خصلتيں پيدا كرنے كى كوشش كريں، كيونكہ خاوند اور بيوى دونوں كو اچھے اخلاق و خصال اپنانے كا حكم ہے، ہو سكتا ہے خلل آپ كى جانب سے بھى ہو اور ہو سكتا ہے جس طرح آپ اپنے خاوند كے اسلوب كى شكايت كر رہى ہيں، آپ كے خاوند نے بھى آپ كے اسلوب كى شكايت كى ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے حالات كى اصلاح فرمائے اور آپ دونوں كے ليے خير و بہترى ميں آسانى پيدا كرے.

دوم:

آپ كے سوال ميں درج ہے كہ: " تقدير نے چاہا كہ " لوگوں ميں يہ جملہ معروف ہے جو كہ ايك غير شرعى اور غلط ہے، كيونكہ تقدير كى كوئى مشيت نہيں ہے، بلكہ صحيح يہ ہے كہ يہ كہا جائے: اللہ نے چاہا يا اللہ نے مقدر كر ديا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

لوگوں ميں يہ قول عام ہے كہ:

" حالات نے چاہا كہ يہ يہ ہوا " يا پھر " تقدير نے ايسے ايسے چاہا " كيا يہ قول صحيح ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

يہ قول كہ " تقدير نے چاہا " اور " حالات نے چاہا " يہ منكر اور برے الفاظ ہيں، كيونكہ ظروف ظرف كى جمع ہے اور يہ حالات اور زمانے كو كہتے ہيں، اور وقت كى كوئى مشيت نہيں ہوتى، اور اسى طرح اقدار قدر يعنى تقدير كى جمع ہے، اور تقدير كى كوئى مشيت نہيں، بلكہ مشيت تو اللہ كى ہے كہ جو اللہ چاہے وہى ہوتا ہے.

جى ہاں اگر كوئى انسان يہ كہے كہ: اللہ كى تقدير نے ايسے ايسے چاہا " تو اس ميں كوئى حرج والى بات نہين، ليكن مشيت كى اضافت اللہ كے علاوہ تقدير كى طرف كرنا جائز نہيں ہے، كيونكہ مشيت ارادہ كا نام ہے، اور ارادہ ايك وصف ہے اور ارادہ موصوف كے ليے ہوتا ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 3 / 113 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب